Sunday, May 17, 2009

سو چوہے کھاکے بلی چلی حج کو


ایک بہت پرانی کہاوت ہے کہ ”سو چوہے کھاکے بلی چلی حج کو“۔ اس کا استعمال کب اور کہاں ہوتا ہے ہر شخص بخوبی جانتا ہے ، لیکن اس کہاوت پر کبھی کسی نے غور کیا.....؟ اس مثل میں دو باتیں ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ بلی نے سو چوہے کھائے ہیں۔ اس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ بلی اب تک سو چوہے اپنے حلق سے نیچے اتار چکی ہے، دوسرا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ گویا اس نے 100قتل کرڈالے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اب سو قتل کرنے کے بعد بلی تائب ہونے چلی ہے تو کیا اس کی توبہ قبول ہوگی؟؟؟
اب آپ غور کیجیے کہ بلی نے چوہے ہی تو نوش فرمائیں ہیں جو اس کی خوراک بھی ہیں۔ جب چوہا بلی کی خوراک میں شامل ہے تو وہ اس کو اپنا نوالہ کیوں نہ بنائے؟؟ ؟ لہٰذا اس نے کیا گناہ کیا؟؟ اگر اپنی خوراک کھانا گناہ ہے تو پھر یہ گناہ عظیمِ انسان سلیم بھی روز انہ کرتا ہے تو پھر یہ کیوں نہیں کہا جاتا کہ ”سو مرغ کھاکے بڈھا چلا حج کو“۔ آخر ایک مسلمان انسان بھی روزانہ مرغ، بکرا، بھینس، اونٹ وغیرہ کے گوشت سے مختلف قسم کے سالن تیار کرتا ہے اور چٹ کرجاتا ہے بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ بغیر کباب و قورمہ، نہاری اور چکن اچاری کے اس کا نوالہ حلق سے نیچے نزول نہیں فرماتا ہے، اور جب وہ اپنی عمر کے آخری پڑاو پر پہنچتا ہے تو حج کو چل دیتا ہے۔(عازمین حج میں جوانی کو پار کرچکے حضرات کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اس لیے کہاوت میں لفظ بڈھا استعمال کیا گیا)۔
یہ بات واضح ہے کہ جسکی جو خوراک ہے وہ اس کو اپنا نوالہ بنائے گا خواہ بلی چوہے کو یا شیر بکری کو، اور بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھائے یا پھرایک مچھر انسان کا خون ہی کیوں نہ چوسے۔ ہر جاندار اپنی پیٹ پوجا کے لیے ان تمام چیزوں کو نوش فرمائے گا جو اس کی غذا میں شامل ہے۔ یہ بات تو صاف ہوئی کہ ہر باحیات اپنی خوراک ہضم کرے گا ۔ ہاں یہ الگ مسئلہ ہے کہ وہ اس کوکس طرح حاصل کرتا ہے ، جائز طریقے سے یا ناجائز طریقے سے۔۔۔۔ اب اگر بلی نے ناجائز طرےقے سے 100 چوہے کھائے ہوں تو وہ قصور وار ہے لیکن اگر قصور وار مان بھی لیا جائے تو کیا اب وہ تو بہ کی حق دار نہیں...؟؟؟ بے چاری بلی