Sunday, November 28, 2010

کثرت میں وحدت ہندوستان کی خوبصورتی ہے


میں روز صبح مارننگ واک پر جاتا ہوں۔ علی الصباح چہل قدمی صحتِ جسم و دماغ کے لیے مفید ہے۔ صبح سویرے چڑیوں کی چہچہاٹ کے ساتھ باغ کی روِش پر چلنا مجھے بے حد پسند ہے۔اپنی اِسی عادت کے مطابق میں آج صبح پارک میں خراما خراما ٹہل رہاتھا۔ بہار کا موسم ہے۔ گل و غنچے اپنے شباب پر ہیں۔باغ میں کھلے رنگ برنگے مختلف طرح کی خوشبووں والے متنوع قسم کے پھول لوگوں کے ذہن وقلوب کو معطر کررہے تھے۔میں بھی ایک ہی قسم کے مختلف رنگوں اور خوشبووں اور مختلف النوع پھولوں کی، طرح طرح کی خوشبو ¿وں اور رنگوں سے محظوظ ہو رہا تھا۔ میرے ذہن کی اسکرین پر یکا یک خیالات کے کرداروں نے پے در پے دستک دینی شروع کردی۔ میں سوچ ررہا تھا کہ قدرت نے کیسے کیسے پھول بنائے ہیں۔ پھولوں کی ایک ہی قسم کے کئی انواع، کئی رنگ، طرح طرح کی خوشبوویں،لیکن ہیں سارے کے سارے پھول-----ان تمام پھولوں میں ایک طرح کی وحدت ہے۔ یہ تمام پھول ہیں تو مختلف طرح کے مگر لوگوں کو یہ پھول صرف فائدہ ہی پہنچاتے ہیں۔ لوگوں کے ذہن و قلوب کو راحت بخشتے ہیں اور انھیں محظوظ کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑتے۔یہ وحدت ہی تو ہے کہ ایک مالا میں کئی رنگ اور کئی قسم، اور کئی انواع کے پھول ایک ساتھ مل کر مالا کی وحدت کو قائم رکھتے ہیں۔ ایک گلدستے میں مختلف قسم کے پھول باہم مل کر جاذب نظر بنتے ہیں۔
میں ان پھولوں کے بارے میں سوچ رہاتھا کہ ایک نئے خیال نے پھر میرے ذہن کو کھٹکھٹایا کہ ارے یہ پھولوں کی کثرت میں وحدت کی مثال جو پوری دنیا کے پھولوں میں پائی جاتی ہے، ہمارے ملک ہندوستان کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔اس خصوصیت نے ہندوستان کی خوبصورتی میں چار چاند لگائے ہیں۔ کثرت میں وحدت کی یہ مثال ہندوستان کے علاوہ کسی دیگر ملک میں خال خال ہی نظر آتی ہے۔اس نئے خیال نے میرے ذہن کو ہندوستان کی سیر کرانی شروع کردی۔ کثرت میں وحدت کی مثال کے نمونے لیکر خیالات کی ایک لمبی قطار میرے ذہن کی اسکرین پر صف بستہ کھڑی تھی۔ ایک ایک کرکے خیالات آگے بڑھتے اور اسکرین پر اپنا کردار نبھا کر پیچھے ہٹ جاتے لیکن اپنے گہرے نقوش چھوڑجاتے۔
میں سوچنے لگا کہ ہم انسانوں کی ایک قیمتی چیز زبان، یعنی ذریعہ اظہار ، جس کے ذریعے ہم اپنے مافی الضمیرکودوسروں تک پہنچاتے ہیں، ہمارے ملک ہندوستان میں کئی طرح کی ہیں۔ ہندوستان کے آئین کے مطابق بولی، پڑھی ، لکھی اور سمجھی جانے والی زبانیں جہاں 24کی تعداد میں ہیں،تو وہیں صرف بولی اور سمجھی جانے والی بولیاں اس سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ یہ ہندوستان ہے جہاں قدم قدم پر لہجے بدل جاتے ہیں لیکن پھر بھی یہاں کے باشندے اپنی بات دوسروں تک پہنچادیتے ہیں اور انھیں کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوتی۔ یہ کثرت میں وحدت نہیں تو اور کیا ہے ۔ جہاں بھانت بھانت کی بولیاں ہیں اور بھانت بھانت کے لہجے۔ اور ہر زبان اورہر بولی کی ایک الگ شیرینی، اپنی الگ تاثیر اور اپنی منفرد پہچان، مگر پھر بھی ایک دوسرے کے ساتھ ہےں۔
میرے خیال نے ایک اور جست لگائی۔ یہ کیا؟؟؟ میرے ذہن کی اسکرین پر ان پھولوں کی طرح رنگ برنگے تہواروںکی جھلکیاں نظر آرہی ہیں۔یہ ہندوستان ہے۔ جہاں کثرت سے تہوار منائے جاتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جشن ہوتا ہے ۔ بچے کی ولادت سے اس انسان کی وفات تک نہ جانے کتنے تہوار منائے جاتے ہےںمختلف ریاستوں میں الگ الگ انداز میں بچے کی ولادت پر جشن منایا جاتا ہے۔ تہوار بھی ایک نہیں بلکہ ان گنت الگ الگ ریاستوں کے اپنے الگ تہوارہیں، جو اپنے اندر ایک کشش رکھتے ہیں، اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں۔ میرے خیالات تیزی سے بدلتے ہیں۔ ابھی میں ریاستوں کے تیوہاروں کی جھلکیاں دےکھ رہاتھا کہ اچانک منظر بدلتا ہے۔ یہ کیا؟ فصل کے کٹنے کے مناظر اور اس پر جشن۔ پنجاب میں بھانگڑا ہو رہا ہے تو اتر پردیش میں دیہاتی عورتیں فصل کی کٹائی، دنوائی کے ساتھ مسرور کن جشن کے نغمے گنگنارہی ہیں۔ کیرل، کرناٹک اور تمل ناڈو کے باشندوں کے خوشی منانے کے الگ طریقے۔ غرض یہاں بھی کثرت میں وحدت ہے۔ موسم ایک ہے۔ موقع ایک ہے۔ مگر جشن کے انداز جداگانہ۔۔ منظر پھر بدلتا ہے ۔ تہوار مذہبی بھی تو ہوتے ہیں ۔ عید کا دن ہے۔ ایک کثیر تعداد میں لوگ سفید لباس میں ملبوس نظر آرہے ہیں، جن کے سرو ںپر مختلف قسم کی ٹوپیاں ہیں۔ ایک عجیب مسرت و کیفیت والا منظر ہے۔ امیر غریب سب ایک ساتھ ہیں۔ عید گاہ پر میلہ لگا ہوا ہے۔ اسی میلے میں ایک صاحب ثروت و دولت کا صاحب زادہ کھلونہ خرید رہا ہے تو وہیں ایک یتیم غریب بچہ اپنی بوڑھی دادی کے لیے چمٹا خرید رہا ہے ۔اچانک ایک پچکاری میرے ذہن پر پڑتی ہے اور منظر بدل جاتا ہے۔ یہ کیا؟ یہ تو ہولی ہے۔ جہاں لوگ گلے شکوے بھول کر ایک دوسرے کو گلے سے لگاتے ہوئے رخسارو ںپر گلال مل کر لوگوں کے درمیان پیدہ شدہ تناو ¿ اور خلیج کو ختم کردیتے ہیں ۔ اور مستی کرتے ہوئے لوگوں کی آوازیں آتی ہیں برا نہ مانو ہولی ہے۔ اسی شور وغل میں مجھے بھانگڑا کی کان پھاڑنے والی آوازیں سنائی دیتی ہیں تو وہیں سرگوشی میں کسی چرچ سے عیسی مسیح کی ولادت کے جشن کا علم ہوتا ہے۔ یہ مختلف قسم کے تیوہارمختلف مذاہب کے ماننے والوں کی جانب سے منائے جارہے ہیں جو اس بات کے شاہد ہیں کہ ہندوستان کثیر اللسان ملک کے ساتھ کثیر المذاہب ملک بھی ہے جہاں ایک خدا کو کئی طرح سے پوجنے والے موجود ہیں اور ایک ساتھ مل کر اس ملک میں رہتے ہیں۔ اسی کو کثرت میں وحدت کہتے ہیں۔
پارک میں چہل قدمی کے لیے بنی روِش پر چلتے چلتے میں ایک پتھر سے ٹکراجاتا ہوں اور خیالات کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اچانک ایک کمسن دوشیزہ پر میری نظرپڑتی ہے ۔ وہ کان میں ایئر فون لگائے، گھاس پر ننگے پاوں خراماخراما اپنی دنیا میں مگن چہل قدمی میں مصروف ہے۔ جسم پر ایک ڈھیلا ڈھالا لباس ہے جس سے کسی خاص طبقے کی شناخت نہیں ہو پارہی ہے ۔ اس کو دےکھتے ہی پھرخیالات کا ایک اور جھونکا میرے ذہن پرحاوی ہوتا ہے ۔ میں پھر سے ٹہلتے ٹہلتے سوچنے لگتا ہوں کہ ہمارے ملک ہندوستان میں کیسے کیسے لوگ بستے ہیں۔ جن کی اپنی الگ الگ تہذیب ہے اور اپنی الگ شناخت ہے لیکن پھر بھی ایک ساتھ ہیں۔ ایک اور خیال میرا ہاتھ پکڑ کر دیہات کی طرف لے جاتا ہے اور وہاں کے کلچر سے روشناس کراتا ہوا قصبے سے گذرتا ہے، جہاں کی تہذیب گاوں سے مختلف ہونے لگتی ہے اور جب میں شہر میں پہنچتا ہوں تو ایک الگ ہی منظر ہوتا ہے۔ گاوں میں زیادہ اور قصبوں میں کم،لوگوں میں ایک طرح کی یکسانیت ہے ۔ لوگوں کی طرز زندگی ایک سی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہرگاوں دوسرے گاوں سے مختلف اور ہرقصبہ دوسرے قصبے سے مختلف، گویا پورے ملک میں جتنے گاوں او رقصبے اتنے کلچر لیکن شہر میں معاملہ بالکل برعکس شہر تو تہذیبوں کا سنگم ہے۔ قریب سے دےکھےں تو ایک ایک سوسائٹی اور ایک ایک بلڈنگ کے الگ الگ فلےٹوں میں طرح طرح کی تہذیب و تمد ن والے لوگ بستے ہیں لیکن ان کے درمیان ایک وحدت ہوتی ہے بھائی چارے کی، آپسی رشتے کی، ایک ساتھ رہنے کی۔ اس سے اچھی کثرت میں وحدت کی مثال اور کیا ہوسکتی ہے۔
میرے ذہن کی اسکرین پر چلنے والی متحرک فلم کا منظر بدلتا ہے اور اسکرین چار حصوں میں منقسم ہو جاتی ہے۔ چاروں خانوں میں چار مختلف چیزیں نظر آتی ہیں۔ اور چارو ں خانوں میں قدر ت کے حسین نظارے ہیں۔ جو قدرت نے ہمیں خصوصی طور پرعطا کیے ہیں۔ ایک حصے میں راجستھان کی خشک پہاڑی علاقوں کا منظر ہے تووہیں دوسرے حصے میں جموں و کشمیر کی سرسبز وادیاں اپنے جلوے بکھیر رہی ہیں۔ ایک حصے میں خشکی کا سماں ہے تو دوسرے میں پانی ہی پانی۔ کہیں گرمی کی شدت کا منظر مجھے پسینے پسینے کردیتا ہے تو کہیں لداخ جیسے سرد علاقوں کے مناظر اور یخ بستہ ہواووں سے پورے جسم میں جھر جھری پیدا ہوجاتی ہے۔ ایک حصے میں ریگستانی علاقے کی تپش ہے تو دوسری جانب سمندری علاقوں کے خوش نما مناظر۔خالق کائنات نے جو ہمیں قدرتی چیزیں دی ہیں اس میں بھی کثرت میں وحدت ہے۔ ایک ہی ملک میں وہ ساری چیزیں دے دی ہیں جو پوری دنیا میں الگ الگ جگہوں پر پھیلی ہوئی ہیں۔ گویا پورے ہندستان کے ذرے ذرے میں کثرت میںوحدت کا راز پنہاں ہے۔ جو اس ملک کی خوبصورتی کو دوبالاکرتا ہے۔
میں باغ کی روش پر ٹہلتے ٹہلتے ان خیالات میں غرق تھا کہ شعاع آفتاب کی تمازت مےرے ان خیالات پر بریک لگاتی ہے اور میں اپنی حقیقی دنیا میں آجاتا ہوں۔ گھڑی پر نظر پڑی۔۔۔۔۔وقت زیادہ ہوچکا تھا۔ میں پارک سے نکل کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہواگھر کی جانب چل پڑا۔۔۔