Sunday, January 16, 2011

غالب کا اندازِ بیاں اور



ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
اسی اندازبیاں اور میں غالب نے اپنے بارے میں نواب علاء الدین احمد خاں بہادرعلائی کو ایک اردو خط میں جو لکھا ہے وہ حسن بیاں کا بہترین نمونہ ہے۔ بقول غالب ’’سنو عالم دو ہیں: ایک عالم ارواح اور ایک عالم آب و گل۔ حاکم ان دونوں عالموں کا وہ ایک ہے جو خود فرماتا ہے:’’ لِمَنِ المُلکُ الیَومَ‘‘؟ اور پھر آپ جواب دیتا ہے: ’’لِللٰہِ الواحِدِ القَہّارِ‘‘ ۔
ہر چند قاعدہ عام یہ ہے کہ عالم آب و گل کے مجرم عالم ارواح میں سزا پاتے ہیں لیکن یوں بھی ہوا ہے کہ عالم ارواح کے گنہگار کو دنیا میں بھیج کر سزا دیتے ہیں۔ چنانچہ میں آٹھویں رجب سنہ ۱۲۱۲ھ (۲۷دسمبر۱۷۹۷ء) میں روبکاری کے واسطے یہاں بھیجا گیا۔ ۱۳ برس حوالات میں رہا۔ ۷رجب سنہ ۱۲۲۵ھ (۹؍اگست ۱۸۱۰ء) کو میرے واسطے حکم دوام حبس صادر ہوا۔ ایک بیڑی میرے پاؤں میں ڈال دی۔ اور دلی شہر کو زنداں مقرر کیا، اور مجھے اس زنداں میں ڈال دیا۔ فکر نظم و نثر کو مشقت ٹھہرایا۔ برسوں کے بعد، میں جیل خانے سے بھاگا۔ تین برس بلاد شرقیہ میں پھرتا رہا۔ پایان کار مجھے کلکتے سے پکڑ لائے اور پھر اسی محبس میں بٹھا دیا۔ جب دیکھا کہ یہ قیدی گریز پا ہے، دو ہتکڑیاں اور بڑھادیں۔ پاؤں بیڑی سے فگار، ہاتھ ہتکڑیوں سے زخمدار۔ مشقت مقرری اور مشکل ہوگئی۔ طاقت یک قلم زائل ہوگئی۔
بے حیا ہوں۔ سال گزشتہ بیڑی کو زاویہ زنداں میں چھوڑ، مع دونوں ہتکڑیوں کے بھاگا۔ میرٹھ، مراد آباد ہوتا ہوارام پور پہنچا۔ کچھ دن کم دو مہینے وہاں رہاتھا کہ پھر پکڑا آیا۔ اب عہد کیا کہ پھر نہ بھاگوں گا، بھاگوں کیا؟بھاگنے کی طاقت بھی تو نہ رہی۔‘‘
غالب کی عظمت کا راز اس کی تحریروں میں پنہاں ہے۔ خواہ وہ منظوم ہوں یا منثور۔ اردو ادب کی یہ شخصیت دنیا جہان کے تمام ادب میں معروف و مشہور ہے۔ بقول غالب ’’شہرت شعرم بگیتی بعد من خواہدشدن‘‘ کے مصداق ان کی پذیرائی ان کی وفات کے بعد ہوئی۔ ان کاکلام خصوصاً اردو کلام عبد الرحمن بجنوری کی زبان میں ہندوستان کا الہامی کلام ہے اور دیوان غالب ہندوستان کی الہامی کتاب وید مقدس کے متوازی ہے۔
اردو ادب کے شعرا میں غالب کا وہ مقام ہے کہ ان کا مقابلہ آسانی سے دنیا کے عظیم ترین شعرا سے کیا جاسکتا ہے۔ بقول زاہدہ زیدی ’’اگر ہم انھیں شہرہ آفاق شعرا مثلاً سونوکلیز، شیکسپےئر، دانتے، گوئٹے، رومی، حافظ، ملٹن، ورڈزورتھ، کالی داس، ٹیگور، اقبال، ایلیٹ اور بوجنبومونتالے وغیرہ کے پہلو بہ پہلو رکھ کر دیکھیں تو کسی قسم کی ندامت محسوس نہیں کریں گے بلکہ بیشتر صورتوں میں غالب ہی کی عظمت کا پلڑا بھاری پائیں گے...غالب اور شیکسپےئر میں کئی اعتبار سے گہری مماثلت محسوس کی جاسکتی ہے۔ دونوں نے زندگی کو اس کی ہمہ گیری،رنگا رنگی، بوقلمونی، لطف و نشاط، محشر انگیزی، المناکی اور بے ثباتی کے ساتھ قبول کیا ہے اور اسے سفید و سیاہ کے پیمانے سے نہیں ناپا، بلکہ اس کے ہلکے، گہرے ، لطیف خوشنما، دلنواز، یاس انگیز اور دردناک سبھی رنگوں کو اپنے فن میں سمولیاہے۔ دونوں کے فن میں انسانی جذبات کا ایک شورانگیز سمندر موجزن ہے اور دونوں کی نفسیاتی بصیرتیں حیرت انگیز ہیں اور دونوں نے رنج وغم اور المناک تجربات سے نایاب بصیرتوں اورہمہ گیر وژن کی کشیدگی اور سب سے بڑھ کر یہ دونوں عظیم فنکار الفاظ کا جادو جگانے میں اور سبھی شعرا پر فوقیت رکھتے ہیں۔‘‘
غالب کا فن ایک
Miniature Painter
کے فن سے مشابہت رکھتا ہے جو ایک بہت چھوٹے سے کینوس پر ایک نازک برش کی حساس جنبش سے اور لطیف اور خوش نما رنگوں سے دلنواز نقش تخلیق کرتا رہتا ہے۔ غالب غزل کے بادشاہ ہیں اور غزل کے سیاق وسباق میں غالب کے اشعار کا کینوس محدودہوتے ہوئے بھی وسیع اور اس کی دلکشی غیر معمولی اور معنی آفرینی لا محدود ہے۔ ان کے بیشتر اشعار شدید احساسات، نادر مشاہدات اور نایاب بصیرتوں کا بیش بہا خزینہ ہیں۔
گنجینہ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کی غالب مرے اشعار میں آوے
غالب جدید ذہن کے خالق ہیں۔ بقول علی سردار جعفری ’’غالب کی عظمت صرف اس میں نہیں کہ انھوں نے اپنے عہد کے اضطراب کو سمیٹ لیا، بلکہ اس میں کہ انھوں نے ایک نیا اضطراب پیدا کیا۔ ان کی شاعری اپنے عہد کے شکنجوں کو توڑتی ہوئی ماضی اور مستقبل کی وسعتوں میں پھیل جاتی ہے۔‘‘ غالب نے غزل کے روایتی فورم کو غیر معمولی وسعت دے کر اسے زندگی کے گوناگوں تجربات احساسات، خیالات، مسائل اور گہری بصیرتوں کے اظہار کا وسیلہ بنایا۔ ان کی غزلیں تراشیدہ ہیروں کی طرح انسانی زندگی کے بے شمار رنگوں کو بیک وقت منعکس کرتی ہیں۔ بقول محمد حسن ’’غالب کے کلام میں درد و الم کے حاشیے اور آرزومندی کے بیل بوٹے دونوں ایک دوسرے سے دست و گریباں ہے بلکہ یوں کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا کہ انہی دونوں کی کش مکش سے غالب کا فن عبارت ہے۔‘‘
اس شمع کی طرح سے جس کو کوئی بجھادے
میں بھی جلے ہوؤں میں ہوں داغ ناتمامی
زندگی اپنی جو اس رنگ سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
اردو ادب میں انہی پہلو دار شاعری کی وجہ سے غالب ممتاز شاعر ہیں اور ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں۔ غالب پر اردو ادب کو فخر ہے اور اردو ادب ہندوستان کے تہذیبی نقش و نگار کا ایک نقش لازوال ہے۔ بقول سید احتشام حسین :’’غالب نے نظم و نثر میں جو کچھ لکھا ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غالب کی معلومات محض کتابی نہیں تھی بلکہ اپنی ذہانت اور ذاتی تجربہ کی وجہ سے وہ قدیم تصورات سے آگے جاناچاہتے تھے۔ نئی باتوں کو سمجھنا اور نئی انجمنوں سے دلچسپی لینا چاہتے تھے۔‘‘
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں
غالب کی عظمت کی بقا ان کی غزلیہ خصوصیات میں مضمر ہے۔ رمز وکنایات اور اختصار انھیں خصوصیات میں سے ایک ہے۔
قفس میں مجھ سے روداد چمن کہتے نہ ڈر ہمدم
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو
غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
حسن کے شیدائی غالب نے خلوص و سادگی کے ساتھ حسن کو تصوف سے قریب کرکے اپنے اشعار میں پیش کیا ہے۔
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ و عشوۂ و ادا کیا ہے
شکن زلف عنبریں کیوں ہے
نگہ چشم سرمہ سا کیا ہے
غالب کا عشق حقیقی اور مجازی دونوں تھا۔ صوفیانہ اور عارفانہ کلام غالب کی کائنات شعری میں قدم قدم پر موجود ہے۔
دل پر قطرہ ہے ساز انا البحر
ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا ہے
قطرہ میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل
کھیل لڑکوں کا ہوا دیدۂ بینا نہ ہوا
دہر جزو جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں
غالب کے تخیل کی پرواز فرش تا عرش کے تمام مظاہر کا احاطہ کرتی ہوئی عرش سے ماوراء کی تمناکرتی ہے۔
منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے
عرش سے اِدھر ہوتا کاشکے مکاں اپنا
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
غالب کی دنیائے عشق و عاشقی میں رنگینی و رعنائی کی بہار اور سرور و مستی کا لطف بھی ہے۔ طالب کاشمیری ’’جوہر آئینہ ‘‘ میں رقم طراز ہیں: ’’حسن و عشق کے جذبات واحساسات اور واردات وکیفیات کی ترجمانی کے سلسلے میں انسانی نفسیات کے رنگ میں رنگی ہوئی جیسی تصویریں غالب نے کھینچی ہیں، ان کی مثال ملنی مشکل ہے۔ معشوق کا ناز و انداز، عشوہ و ادا، شرم و حیا چھیڑچھاڑ، رازونیاز، دردِ ہجر، کیفیتِ وصل، خواہشِ بوس وکنار، لذتِ دشنام، عاشق کی سادگی،تمنا، جوشِ جنوں، ذوقِ صحرانورودی، بے اثریِ آہ، و نارسائی نالہ وغیرہ سب کچھ ان کے یہاں موجود ہے۔ غرض فطرت انسانی کے اکثر تقاضے جو جذبۂ عشق سے متعلق ہیں اور معاملہ بندی کے محرک ہوتے ہیں وہ اپنی فن کاری سے اس طرح اُجاگر کرتے ہیں کہ یہ عمل اوروں کی دسترس سے باہر ہے۔‘‘
نیند اس کی ہے، دماغ اس کا ہے، راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں
اسد بندِ قبائے یار ہے فردوس کا غنچہ
اگر وا ہو تو دکھلادوں کہ اک عالم گلستاں ہے
اسد اٹھنا قیامت قامتوں کا وقتِ آرائش
لباس نظم میں بالیدنِ مضمون عالی ہے
آل احمد سرور کے الفاظ میں ’’غالب کی شاعری ایک بالغ ذہن کی شاعری ہے جو تخیل کی مدد سے زندگی کے ان گوشوں کو دیکھ لیتا ہے جو عام نظروں سے پوشیدہ تھے۔ یہی تخلیقی تخیل انھیں ہر سطحی رومانیت اور سستے نشے کی تہی مایگی سے آشنا کردیتا ہے۔‘‘ آخر میں ظ۔انصاری کا ایک اقتباس جس میں غالب کی آفاقی شہرت کا راز پوشیدہ ہے۔ بقول ظ۔انصاری: ’’اردو کے کسی شاعر کے یہاں اتنی غزلیں یکجا نہیں ملتیں جو اول سے آخر تک منتخب اشعار کا مجموعہ ہوں یا جن میں اول درجے کے اشعار ایک ہی غزل میں اس طرح چنے ہوئے ہوں کہ خیال ایک ہی کیفیت کے مختلف پہلؤوں کا مرحلوں میں لطف لے سکے۔ ان میں باطنی رشتے کے علاوہ آوازوں اور لفظوں کا بھی حسن ہموار نظر آتا ہے۔‘‘
...................

سلمان فیصل
ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ
پتہ
370/6-A
ذاکر نگر، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔۲۵
sfaisal11@gmail.com