Saturday, April 20, 2013

اردو محققین کے پیش رو: سر سید احمد خاں


اردو زبان و ادب کے ارتقا، وسعت، تنوع اور تبدیلیوں میں تحریکوں اور رجحانات کا بہت اہم کردار رہا ہے۔انھیں تحریکوں اور رجحانات کے زیر سایہ اردو زبان و ادب کی پرورش و پرداخت ہوئی اور انھیں کے زیر نگرانی اس کے حسن میں نکھار آیا جس نے پوری دنیا کو مسحور کردیا اور لوگ اس کے دامِ سحر میں گرفتار ہونے لگے۔جن دو تحریکوں نے اردو زبان ادب کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ علی گڑھ تحریک اور ترقی پسند تحریک ہے۔ علی گڑھ تحریک ہی نے اردو نثر کو مسجع و مقفی کی بیڑیوں سے آزاد کرایا اور اس میں سب سے اہم رول بانیِ علی گڑھ تحریک سر سید احمد خاں کا ہے۔غالب کی مسجع ومقفی سے پاک آسان اور سادہ مکتوب نگاری کے بعد سر سید احمد خاں نے اسی سادہ سلیس ، عام فہم اور آسان زبان میں مضمون نگاری کے ذریعے اردو نثر کو ایک نئی زندگی عطا کی ۔

سر سید احمد خاں کی شخصیت اور ان کی خدمات پر طائرانہ نظرڈالی جائے تو ان کے کئی روپ سامنے آتے ہیں ۔ وہ ایک مصلح قوم و ملت، عظیم مفکراور دانشور تھے۔ علی گڑھ تحریک کے زیر سایہ انھوں نے قوم و ملت کی خدمت کی اور اس کے ساتھ انھوں نے اردو زبان خصوصاً اردو نثر کو عوام کے طبقے تک پہنچانے میں اہم رول ادا کیا۔سرسید ایک اچھے معلم بھی تھے اور تعلیم و تربیت پران کی خصوصی توجہ تھی۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ تعلیم ہی کے ذریعے انسان کامیابی کے راستے کوپار کر منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے ۔ اسی لیے انھوں نے مسلمانوں کی تعلیم و تربیت پر بہت زور دیا اور اسی کے نتیجے میں محمڈن اینگلو اورینٹیل کالج کا قیام عمل میں آیا جو آگے چل کر ایک مرکزی یونی ورسٹی میں تبدیل ہوگیا۔ وہ صحافی اور مصنف بھی ہیں۔ تاریخی، مذہبی، علمی اور تہذیبی موضوعات پر کئی کتابوں کی تصنیف اور بے شمار مضامین کے ساتھ ساتھ اردو کے مایہ ناز رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کی ادارت کی اور اس کے خد و خال کو سنوارا۔ اسی رسالے کے ذریعے انھوں نے عوام خصوصاً مسلم عوام سے رابطہ پیدا کرکے انھیں ذلت کے غار سے نکالنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔
سر سید کی ایک اور حیثیت ہے ۔ وہ اردو محققین کے پیش رو ہیں۔ اردو میں تحقیق کی روایت کا آغاز انھیں سے ہوتا ہے ۔ گرچہ اس سے قبل بھی اردو نثر میں تحقیق کے عناصر پائے جاتے تھے مگر سر سید نے تحقیق کے سائنٹفک اصولوں کے تحت اردو تحقیق کی نئی روایت قائم کرتے ہوئے اپنے جانشین محققین کے لیے تحقیق کی بنیادیں فراہم کیں جس پر اردو کے محققین نے بلند و قامت عمارت تعمیر کی ہے۔
سرسید کو محقق بنانے اور اپنے جانشین محققین کے لیے نقوش چھوڑنے میں سب اہم رول ان کی مایہ ناز تصنیف ’’آثار الصنادید‘‘ نے ادا کیا ہے۔یو ں تو یہ ایک تاریخی کتاب ہے جو چار ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے تین ابواب میں دہلی کی تاریخی عمارتوں اور قدیم کھنڈرات کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔ پہلے باب میں فصیل بند شہر دہلی کے باہر کی عمارتوں کا ذکر ہے۔ دوسرے باب میں قلعہ معلی کی عمارتوں کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔ تیسرے باب میں شہر شاہجہان آباد جو فصیل بند شہر تھا، اس میں موجود تاریخی عمارتوں کی معلومات درج کی گئی ہیں۔ چوتھے اور آخری باب میں دہلی کے علما، صوفیا، ادبا و شعرا، اطبا، موسیقاروں اور دیگر فن کاروں کا مختصر اور جامع تذکرہ موجود ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی اپنی کتاب ’’حیات جاوید‘‘ میں اس کتاب کے ابواب بارے میں لکھتے ہیں کہ’’پہلے باب میں تقریباً ۱۳۰ عمارتوں کا بیان ہے جن میں ہندو اور مسلمان دونوں کی عمارتیں شامل ہیں اور چند کے سوا باقی ہر عمارت کا کتبہ اور نقشہ اس کے ساتھ دیا گیا ہے۔ دوسرے باب میں ۳۲عمارتوں کا بیان اوراس کے نقشے اور کتبے مندرج ہیں۔ تیسرے باب میں تقریباً ۷۰ حویلیوں، مسجدوں، مندروں، بازاروں، باولیوں اور کنووں وغیرہ کا بیان ہے ۔ چوتھے باب میں اول کسی قدر اُن شہروں، قلعوں، اور محلوں وغیرہ کا بیان ہے جو ۴۰۴ ؁بکرمی سے لے کر آخر تک وقتاً فوقتاً اس سرزمین میں آباد ہوئے۔ اس کے بعد یہاں کی آب و ہوا اور زبان اردو کا ذکر ہے۔ پھر مشاہیر اہل دہلی کا حال لکھا ہے جس میں ایک سو بیس مشائخ، علما، فقرا، مجاذیب، اطبا، قرًا، شعرا، خوش نویس، مصور، موسیقی داں وغیرہ کا بیان ہے۔‘‘
سر سید احمد خاں پہلے مصنف ہیں جنھوں نے اردو میں آثار قدیمہ کے موضوع پر علمی اور محققانہ انداز پر معرکۃ الآراء کتاب ’’آثار الصنادید‘‘ لکھی۔ اس کتاب کے بارے میں سیداحتشام حسین نے اپنی کتاب ’’اردو ادب کی تنقیدی تاریخ‘‘میں لکھا ہے کہ ’’...ان میں سب سے زیادہ اہمیت ’’آثار الصنادید ‘‘ کو حاصل ہوئی کیونکہ یہ ہندوستانی زبانوں میں پہلی تحقیقی کتاب تھی جس میں دہلی کی تاریخی عمارتوں کی تفصیل دی گئی تھی۔ اسی کے ساتھ اہل دہلی کاایک تذکرہ بھی تھا۔ اس کے لکھنے میں انھوں نے کچھ مدد امام بخش صہبائی سے بھی لی تھی۔ اس کے ترجمے یورپ کی زبانوں میں بھی ہوئے اور سر سید کی شہرت اور عزت میں اضافہ ہوا۔‘‘ اس کتاب کی شہرت او راہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اسی زمانے میں اس کے دو ایڈیشن شائع ہوئے۔ پہلا ایڈیشن سر سید کے اپنے مطبع سیدالاخبار سے ۱۸۴۷ء میں شائع ہوا۔ ا س کے سات سال بعد سرسید نے اس کتاب پرنظر ثانی کرکے کچھ ترمیم اور حذف و اضافہ کے ساتھ دو بارہ ۱۸۵۴ ء شائع کیا۔ پہلے ایڈیشن میں جو خامیاں راہ پا گئی تھیں ، اس کی وضاحت دوسرے ایڈیشن میں کی گئی تھی۔ مگر دوسرے ایڈیشن میں چوتھے باب کو خارج کردیا گیا تھاجس میں اہل علم حضرات کا مختصرمگر جامع تذکرہ موجود تھا۔ اس کتاب کی تیاری میں سرسید کو بہت محنت اور مشقت کرنی پڑی ۔ تمام عمارتوں کا معائنہ کرنا، پھر اس کے کتبوں اور نقشوں کو پڑھنا اور اس میں سے نوٹ تیار کرنا بہت مشکل امر تھا، بعض بلند و بالا عمارتوں کے کتبے بہت اونچے ہوتے جن کو پڑھنے کے لیے سرسید کو چھینکا اور بلًیوں کا استعمال کرناپڑا، مگر اس مشقت کے باجود سرسید کی ہمت اور ان کا عزم نہیں ہارا ۔ سر سیدکی اس محنت اور لگن کا نقشہ مولانا حالی نے ’’حیات جاوید‘‘ میں یوں کھینچا ہے کہ ’’باہر کی عمارتوں کی تحقیقات کرنا ایک نہایت مشکل کام تھا۔ بیسیوں عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کر کھنڈر ہو گئی تھیں۔ اکثر عمارتوں کے کتبے پڑھے نہ جاتے تھے۔ بہت سے کتبوں سے ضروری حالات معلوم نہ ہوسکتے تھے۔ اکثر کتبے ایسے خطوں میں تھے جن سے کوئی واقف نہ تھا۔ بعض قدیم عمارتوں کے ضروری حصے معدوم ہوچکے تھے۔ اور جو متفرق اور پراگندہ اجزا باقی رہ گئے تھے ان سے کچھ پتا نہ چلتا تھاکہ یہ عمارت کیوں بنائی گئی تھی اور اس سے کیا مقصود تھا....پھر اکثر عمارتوں عرض و طول و ارتفاع کی پیمائش کرنی، ہر ایک کی عمارت صورت حال قلمبندکرنی، کتبوں کے چربے اتارنے اور ہر ایک کتبے کو بعینہ اس کے اصلی خط میں دکھانا، ہر ٹوٹی پھوٹی عمارت کا نقشہ جوں کا توں مصور سے کھنچوانا اور اس طرح کچھ اوپر سوا سو عمارتوں کی تحقیقات سے عہدہ بر آ ہونا فی الحقیقت نہایت دشوار کام تھا۔سیر سید کہتے تھے کہ ’’قطب صاحب کی لاٹ کے بعض کتبے جو زیادہ بلند ہونے کے سبب پڑھے نہ جاسکتے تھے ان کے پڑھنے کو ایک چھینکا دو بلًیوں کے بیچ میں ہر ایک کتبے کے محاذی بندھوا لیا جاتا تھا اور میں خود اوپر چڑھ کر اور چھینکے میں بیٹھ کر ہر کتبے کا چربہ اتارتاتھا جس وقت میں چھینکے میں بیٹھتاتو مولانا صہبائی فرط محبت کے سبب بہت گھبراتے تھے اور خوف کے مارے ان کا رنگ متغیر ہوجاتا تھا۔‘‘ سر سید کی آئندہ ترقیات کی گویا یہ پہلی سیڑھی تھی۔‘‘
اس تحقیقی کتاب کے سبب سرسید کو اردو کا پہلا محقق کہا جا سکتا ہے کیونکہ اول تو اس میں دہلی کی عمارتوں کا محققانہ ذکر تھا ۔ دوسرے یہ کہ اس کتاب کے پہلے ایڈیشن میں چوتھے باب میں جن اہل علم حضرات کے احوال درج کیے گئے وہ تحقیق کے اصولوں پر تیار کیے گئے تھے جو آئندہ کے محققین کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئے۔ یہ کتاب اس زمانے میں اردو زبان کی بدلتی شبیہ کی مثال بھی ہے ۔ کیونکہ اس کے پہلے اور دوسرے ایڈیشن کی زبان میں بہت فرق ہے، جو اردو نثر کے ارتقا کا بین ثبوت ہے۔بقول سید عبداللہ ’’ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۸۴۷ء میں اردو نثر پر سہ نثر ظہور اور انشائے ابولفضل کا گہرا سایہ پڑا ہوا ہے ۔ لیکن سات سال بعد یعنی ۱۸۵۴ء میں ہم اسے انگریزی نثر اور انگریزی انشاپردازی کے اثرات سے متاثر پاتے ہیں۔ اب بے ضرورت تکلف، رنگینی اور فارسیت کی بجائے نثر میں سادگی، سلاست اور بے ساختہ پن صاف دکھائی دیتا ہے۔ غرض آثار کی دونوں اشاعتوں کے د رمیان نثر کے اسلوب میں یکا یک جو تبدیلیاں رونما ہوئیں ان سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے میں گو نا گوں اندرونی اور بیرونی اسباب کی وجہ سے اردو نثر ترقی کے قدم جلد جلد اٹھا رہی ہے۔‘‘
اس کتاب کے علاوہ سرسید نے تاریخ کی تین کتابوں کی تحقیق وتدوین کرکے دو بارہ شائع کیا۔ پہلی کتاب ’’آئین اکبری‘‘ ہے جس میں مغل زیورات کی تصویریں، خیمہ گاہ بادشاہی اور تمام پھل دار اور پھول دار درختوں کی تصویریں شامل تھیں۔ دوسری کتاب ضیا برنی کی ’’تاریخ فیروزشاہی‘‘ کی تدوین ہے جس میں سلاطین ہند کی مستند تاریخ ہے۔ تیسری کتاب ’’تزک جہانگیری‘‘ کی ترتیب و تدوین ہے ۔ ’’آثار الصنادید‘‘ کی تصنیف کے ساتھ ان تین کتابوں کی تحقیق و تدوین نے سرسید کو اردو پہلا محقق بنا دیا۔