Saturday, April 20, 2013

اردو محققین کے پیش رو: سر سید احمد خاں


اردو زبان و ادب کے ارتقا، وسعت، تنوع اور تبدیلیوں میں تحریکوں اور رجحانات کا بہت اہم کردار رہا ہے۔انھیں تحریکوں اور رجحانات کے زیر سایہ اردو زبان و ادب کی پرورش و پرداخت ہوئی اور انھیں کے زیر نگرانی اس کے حسن میں نکھار آیا جس نے پوری دنیا کو مسحور کردیا اور لوگ اس کے دامِ سحر میں گرفتار ہونے لگے۔جن دو تحریکوں نے اردو زبان ادب کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ علی گڑھ تحریک اور ترقی پسند تحریک ہے۔ علی گڑھ تحریک ہی نے اردو نثر کو مسجع و مقفی کی بیڑیوں سے آزاد کرایا اور اس میں سب سے اہم رول بانیِ علی گڑھ تحریک سر سید احمد خاں کا ہے۔غالب کی مسجع ومقفی سے پاک آسان اور سادہ مکتوب نگاری کے بعد سر سید احمد خاں نے اسی سادہ سلیس ، عام فہم اور آسان زبان میں مضمون نگاری کے ذریعے اردو نثر کو ایک نئی زندگی عطا کی ۔

سر سید احمد خاں کی شخصیت اور ان کی خدمات پر طائرانہ نظرڈالی جائے تو ان کے کئی روپ سامنے آتے ہیں ۔ وہ ایک مصلح قوم و ملت، عظیم مفکراور دانشور تھے۔ علی گڑھ تحریک کے زیر سایہ انھوں نے قوم و ملت کی خدمت کی اور اس کے ساتھ انھوں نے اردو زبان خصوصاً اردو نثر کو عوام کے طبقے تک پہنچانے میں اہم رول ادا کیا۔سرسید ایک اچھے معلم بھی تھے اور تعلیم و تربیت پران کی خصوصی توجہ تھی۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ تعلیم ہی کے ذریعے انسان کامیابی کے راستے کوپار کر منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے ۔ اسی لیے انھوں نے مسلمانوں کی تعلیم و تربیت پر بہت زور دیا اور اسی کے نتیجے میں محمڈن اینگلو اورینٹیل کالج کا قیام عمل میں آیا جو آگے چل کر ایک مرکزی یونی ورسٹی میں تبدیل ہوگیا۔ وہ صحافی اور مصنف بھی ہیں۔ تاریخی، مذہبی، علمی اور تہذیبی موضوعات پر کئی کتابوں کی تصنیف اور بے شمار مضامین کے ساتھ ساتھ اردو کے مایہ ناز رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کی ادارت کی اور اس کے خد و خال کو سنوارا۔ اسی رسالے کے ذریعے انھوں نے عوام خصوصاً مسلم عوام سے رابطہ پیدا کرکے انھیں ذلت کے غار سے نکالنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔
سر سید کی ایک اور حیثیت ہے ۔ وہ اردو محققین کے پیش رو ہیں۔ اردو میں تحقیق کی روایت کا آغاز انھیں سے ہوتا ہے ۔ گرچہ اس سے قبل بھی اردو نثر میں تحقیق کے عناصر پائے جاتے تھے مگر سر سید نے تحقیق کے سائنٹفک اصولوں کے تحت اردو تحقیق کی نئی روایت قائم کرتے ہوئے اپنے جانشین محققین کے لیے تحقیق کی بنیادیں فراہم کیں جس پر اردو کے محققین نے بلند و قامت عمارت تعمیر کی ہے۔
سرسید کو محقق بنانے اور اپنے جانشین محققین کے لیے نقوش چھوڑنے میں سب اہم رول ان کی مایہ ناز تصنیف ’’آثار الصنادید‘‘ نے ادا کیا ہے۔یو ں تو یہ ایک تاریخی کتاب ہے جو چار ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے تین ابواب میں دہلی کی تاریخی عمارتوں اور قدیم کھنڈرات کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔ پہلے باب میں فصیل بند شہر دہلی کے باہر کی عمارتوں کا ذکر ہے۔ دوسرے باب میں قلعہ معلی کی عمارتوں کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔ تیسرے باب میں شہر شاہجہان آباد جو فصیل بند شہر تھا، اس میں موجود تاریخی عمارتوں کی معلومات درج کی گئی ہیں۔ چوتھے اور آخری باب میں دہلی کے علما، صوفیا، ادبا و شعرا، اطبا، موسیقاروں اور دیگر فن کاروں کا مختصر اور جامع تذکرہ موجود ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی اپنی کتاب ’’حیات جاوید‘‘ میں اس کتاب کے ابواب بارے میں لکھتے ہیں کہ’’پہلے باب میں تقریباً ۱۳۰ عمارتوں کا بیان ہے جن میں ہندو اور مسلمان دونوں کی عمارتیں شامل ہیں اور چند کے سوا باقی ہر عمارت کا کتبہ اور نقشہ اس کے ساتھ دیا گیا ہے۔ دوسرے باب میں ۳۲عمارتوں کا بیان اوراس کے نقشے اور کتبے مندرج ہیں۔ تیسرے باب میں تقریباً ۷۰ حویلیوں، مسجدوں، مندروں، بازاروں، باولیوں اور کنووں وغیرہ کا بیان ہے ۔ چوتھے باب میں اول کسی قدر اُن شہروں، قلعوں، اور محلوں وغیرہ کا بیان ہے جو ۴۰۴ ؁بکرمی سے لے کر آخر تک وقتاً فوقتاً اس سرزمین میں آباد ہوئے۔ اس کے بعد یہاں کی آب و ہوا اور زبان اردو کا ذکر ہے۔ پھر مشاہیر اہل دہلی کا حال لکھا ہے جس میں ایک سو بیس مشائخ، علما، فقرا، مجاذیب، اطبا، قرًا، شعرا، خوش نویس، مصور، موسیقی داں وغیرہ کا بیان ہے۔‘‘
سر سید احمد خاں پہلے مصنف ہیں جنھوں نے اردو میں آثار قدیمہ کے موضوع پر علمی اور محققانہ انداز پر معرکۃ الآراء کتاب ’’آثار الصنادید‘‘ لکھی۔ اس کتاب کے بارے میں سیداحتشام حسین نے اپنی کتاب ’’اردو ادب کی تنقیدی تاریخ‘‘میں لکھا ہے کہ ’’...ان میں سب سے زیادہ اہمیت ’’آثار الصنادید ‘‘ کو حاصل ہوئی کیونکہ یہ ہندوستانی زبانوں میں پہلی تحقیقی کتاب تھی جس میں دہلی کی تاریخی عمارتوں کی تفصیل دی گئی تھی۔ اسی کے ساتھ اہل دہلی کاایک تذکرہ بھی تھا۔ اس کے لکھنے میں انھوں نے کچھ مدد امام بخش صہبائی سے بھی لی تھی۔ اس کے ترجمے یورپ کی زبانوں میں بھی ہوئے اور سر سید کی شہرت اور عزت میں اضافہ ہوا۔‘‘ اس کتاب کی شہرت او راہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اسی زمانے میں اس کے دو ایڈیشن شائع ہوئے۔ پہلا ایڈیشن سر سید کے اپنے مطبع سیدالاخبار سے ۱۸۴۷ء میں شائع ہوا۔ ا س کے سات سال بعد سرسید نے اس کتاب پرنظر ثانی کرکے کچھ ترمیم اور حذف و اضافہ کے ساتھ دو بارہ ۱۸۵۴ ء شائع کیا۔ پہلے ایڈیشن میں جو خامیاں راہ پا گئی تھیں ، اس کی وضاحت دوسرے ایڈیشن میں کی گئی تھی۔ مگر دوسرے ایڈیشن میں چوتھے باب کو خارج کردیا گیا تھاجس میں اہل علم حضرات کا مختصرمگر جامع تذکرہ موجود تھا۔ اس کتاب کی تیاری میں سرسید کو بہت محنت اور مشقت کرنی پڑی ۔ تمام عمارتوں کا معائنہ کرنا، پھر اس کے کتبوں اور نقشوں کو پڑھنا اور اس میں سے نوٹ تیار کرنا بہت مشکل امر تھا، بعض بلند و بالا عمارتوں کے کتبے بہت اونچے ہوتے جن کو پڑھنے کے لیے سرسید کو چھینکا اور بلًیوں کا استعمال کرناپڑا، مگر اس مشقت کے باجود سرسید کی ہمت اور ان کا عزم نہیں ہارا ۔ سر سیدکی اس محنت اور لگن کا نقشہ مولانا حالی نے ’’حیات جاوید‘‘ میں یوں کھینچا ہے کہ ’’باہر کی عمارتوں کی تحقیقات کرنا ایک نہایت مشکل کام تھا۔ بیسیوں عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کر کھنڈر ہو گئی تھیں۔ اکثر عمارتوں کے کتبے پڑھے نہ جاتے تھے۔ بہت سے کتبوں سے ضروری حالات معلوم نہ ہوسکتے تھے۔ اکثر کتبے ایسے خطوں میں تھے جن سے کوئی واقف نہ تھا۔ بعض قدیم عمارتوں کے ضروری حصے معدوم ہوچکے تھے۔ اور جو متفرق اور پراگندہ اجزا باقی رہ گئے تھے ان سے کچھ پتا نہ چلتا تھاکہ یہ عمارت کیوں بنائی گئی تھی اور اس سے کیا مقصود تھا....پھر اکثر عمارتوں عرض و طول و ارتفاع کی پیمائش کرنی، ہر ایک کی عمارت صورت حال قلمبندکرنی، کتبوں کے چربے اتارنے اور ہر ایک کتبے کو بعینہ اس کے اصلی خط میں دکھانا، ہر ٹوٹی پھوٹی عمارت کا نقشہ جوں کا توں مصور سے کھنچوانا اور اس طرح کچھ اوپر سوا سو عمارتوں کی تحقیقات سے عہدہ بر آ ہونا فی الحقیقت نہایت دشوار کام تھا۔سیر سید کہتے تھے کہ ’’قطب صاحب کی لاٹ کے بعض کتبے جو زیادہ بلند ہونے کے سبب پڑھے نہ جاسکتے تھے ان کے پڑھنے کو ایک چھینکا دو بلًیوں کے بیچ میں ہر ایک کتبے کے محاذی بندھوا لیا جاتا تھا اور میں خود اوپر چڑھ کر اور چھینکے میں بیٹھ کر ہر کتبے کا چربہ اتارتاتھا جس وقت میں چھینکے میں بیٹھتاتو مولانا صہبائی فرط محبت کے سبب بہت گھبراتے تھے اور خوف کے مارے ان کا رنگ متغیر ہوجاتا تھا۔‘‘ سر سید کی آئندہ ترقیات کی گویا یہ پہلی سیڑھی تھی۔‘‘
اس تحقیقی کتاب کے سبب سرسید کو اردو کا پہلا محقق کہا جا سکتا ہے کیونکہ اول تو اس میں دہلی کی عمارتوں کا محققانہ ذکر تھا ۔ دوسرے یہ کہ اس کتاب کے پہلے ایڈیشن میں چوتھے باب میں جن اہل علم حضرات کے احوال درج کیے گئے وہ تحقیق کے اصولوں پر تیار کیے گئے تھے جو آئندہ کے محققین کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئے۔ یہ کتاب اس زمانے میں اردو زبان کی بدلتی شبیہ کی مثال بھی ہے ۔ کیونکہ اس کے پہلے اور دوسرے ایڈیشن کی زبان میں بہت فرق ہے، جو اردو نثر کے ارتقا کا بین ثبوت ہے۔بقول سید عبداللہ ’’ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۸۴۷ء میں اردو نثر پر سہ نثر ظہور اور انشائے ابولفضل کا گہرا سایہ پڑا ہوا ہے ۔ لیکن سات سال بعد یعنی ۱۸۵۴ء میں ہم اسے انگریزی نثر اور انگریزی انشاپردازی کے اثرات سے متاثر پاتے ہیں۔ اب بے ضرورت تکلف، رنگینی اور فارسیت کی بجائے نثر میں سادگی، سلاست اور بے ساختہ پن صاف دکھائی دیتا ہے۔ غرض آثار کی دونوں اشاعتوں کے د رمیان نثر کے اسلوب میں یکا یک جو تبدیلیاں رونما ہوئیں ان سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے میں گو نا گوں اندرونی اور بیرونی اسباب کی وجہ سے اردو نثر ترقی کے قدم جلد جلد اٹھا رہی ہے۔‘‘
اس کتاب کے علاوہ سرسید نے تاریخ کی تین کتابوں کی تحقیق وتدوین کرکے دو بارہ شائع کیا۔ پہلی کتاب ’’آئین اکبری‘‘ ہے جس میں مغل زیورات کی تصویریں، خیمہ گاہ بادشاہی اور تمام پھل دار اور پھول دار درختوں کی تصویریں شامل تھیں۔ دوسری کتاب ضیا برنی کی ’’تاریخ فیروزشاہی‘‘ کی تدوین ہے جس میں سلاطین ہند کی مستند تاریخ ہے۔ تیسری کتاب ’’تزک جہانگیری‘‘ کی ترتیب و تدوین ہے ۔ ’’آثار الصنادید‘‘ کی تصنیف کے ساتھ ان تین کتابوں کی تحقیق و تدوین نے سرسید کو اردو پہلا محقق بنا دیا۔


Sunday, July 24, 2011

اساتذہ کی اہلیتی جانچ: مسائل و مصائب کا انبار

گزشتہ ۲۶جون ۲۰۱۱ اُن آٹھ لاکھ لوگوں کے لیے یوم الحشر تھا، جو مستقبل میں استاذ بن کر قوم کی خدمت کرنے کی امید و آرزوکے چراغ اپنے دلوں میں ہمہ وقت روشن رکھتے ہیں۔ یو م الحشر اس معنی میں تھا کہ اس دن سرکار کی جانب سے اساتذہ کی مستقل تقرری کے واسطے ان کی قابلیت اور صلاحیت کو پرکھنے کے لیے ایک ٹیسٹ رکھا گیا تھا اور ملک بھر میں مختلف مراکز پر امیدواروں کا ہجوم نفسی نفسی کے عالم میں تھا۔ بات در اصل یہ ہے کہ جس طرح کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تقرری کے لیے نیٹ کا معیار رکھا گیا ہے ، اسی طرح اسکول کی سطح پر اساتذہ کی تقرری کے لیے مرکزی سطح پر یا ریاستی سطح پر اساتذہ کی اہلیت کی جانچ کا معیار اس سال سے طے کیا گیاہے، اور اسی معیار پر کھرا اترنے کے لیے آٹھ لاکھ طلبا و طالبات اور عارضی طور پر بر سر روزگار اساتذہ پورے ملک میں مختلف مراکز پر جمع ہوئے۔
گزشتہ ۲۶ جون کو سی بی ایس ای کی جانب سے پورے ملک میں ۸۶ شہروں؍قصبوں کے ۱۱۷۸ مراکزپر سی ٹی ای ٹی کا انعقادکیا گیا تھا۔ ان ۱۱۷۸ مراکز پر طلبا کا ہجوم اور ان کو لاحق پریشانیاں قابل افسوس تھیں۔ اس کی ایک جھلک قومی راجدھانی دہلی میں بھی دیکھنے کو ملی۔ چونکہ اس ہجوم میں ، میں بھی شامل تھا، لہٰذا اس ہجوم کو لاحق پریشانیوں اور تجربوں سے میں بھی پریشان اور مستفید ہوا۔اس دن کے امتحان میں شرکت کرنے والوں کو کئی قسم کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سب سے پہلی مشکل جس کی شکایت سبھی نے کی وہ وقت کی قلت تھی۔ یعنی امتحان کا مقررہ وقت دیڑھ گھنٹہ تھا اور سوالات ایک سو پچاس۔ گو یا کہ ۹۰ منٹ میں ۱۵۰ سوال حل کرنے تھے، جو کسی بھی صورت میں ممکن نہیں تھا۔ چونکہ سوالات معروضی تھے ، لہٰذا آخری ۵منٹ میں تمام امید وار تقریبا ۳۰ سے ۵۰ سوالات بغیر پڑھے اور سجھے جوابی کاپی میں دیے گئے گولے کو قسمت کے سہارے پُر کرنے پر مجبور تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ امتحان گاہ سے نکلنے کے بعد امیدواروں نے تقریباً ایک زبان ہو کر کہا کہ اگلے سال گولہ بھرنے کی مشق کرکے آئیں گے۔ ان کے اس جملے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انھیں پوری امید ہے کہ اس سال وہ کامیاب نہیں ہو سکتے اور اگلے سال بھی وقت کی کمی کے باعث اسی طرح کی پریشانیاں سامنے آ سکتی ہیں لہٰذا کم وقت میں زیادہ گولہ بھرنے کی مشق کی جائے تاکہ کوئی جواب چھوٹنے نہ پائے چہ جائے کہ وہ سوالات کو سمجھیں یا نہ سمجھیں۔
اس دن کی ایک بڑی پریشانی یہ بھی تھی کہ امتحان کے مراکز پر تعنیات نگراں کو بھی اس امتحان کے قواعد و ضوابط سے متعلق پوری جانکاری نہیں تھی۔ایسا لگتا ہے کہ انھیں کسی بھی قسم کی ہدایات نہیں دی گئیں اور اگر انھیں ہدایات سے نوازا بھی گیا توانھوں نا اہلوں نے سنی ان سنی کردی، جس کی وجہ سے ان کے ساتھ ساتھ امیدواروں کو بھی کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس امتحان میں امیدواروں کو دو زبانوں کا بھی ٹیسٹ دینا تھا، اور ان زبانوں کا انتخاب آئین کے آٹھویں شیڈول میں موجود زبانوں میں سے کرنا تھا۔ انگریزی اور ہندی کے سوالنامے تو دیگر مضامین کے ساتھ یکجا تھے، مگر ان دونوں کے علاوہ جو زبانیں تھیں ان کے سوال نامے الگ الگ بنائے گئے تھے۔ اور یہ سوالنامے ان امیدواروں کو مہیا کرایا جانا تھا جنھوں نے انگریزی یا ہندی کے علاوہ دیگر زبانوں کا انتخاب کیا تھا۔ لیکن یہ سوالنامے ان طلبا کو تاخیر سے دئے گئے اور بعض مراکز پر ان امیدواروں کو انگریزی اور ہندی کے علاوہ دیگر زبانوں کے سوالنامے تو دئے ہی نہیں گئے۔ان بے چاروں نے بغیر سوالناموں کے اپنے جوابات قسمت کے سہارے اپنی جوابی کاپی میں بھردئے۔ اس سلسلے میں کئی مراکز پر ایک اور گڑبڑی ہوئی جو امتحان منعقد کرانے والے مراکز کی نا اہلی کو ثابت کرتی ہے ۔ ہوا یوں کہ بیشتر مراکز پر انگریزی اور ہندی کے علاوہ دیگر زبانوں کے سوالناموں کی کاپیاں ان کے اصل سوالناموں کی کاپی کے نمبر سیریز کے مطابق نہیں دی گئیں۔ مثلا اگر اصل سوالنامے کی کاپی کا سیریز نمبر اے ہے تو ان کو ضمیمہ سوالنامے کی کاپی بی؍سی؍ڈی سیریز کی دی گئی۔ اور چونکہ وقت کی کمی کے باعث امیدواروں نے اس بات کو نوٹس نہیں کیا اور وہ اپنے سوالات حل کرنے میں مصروف رہے۔لہٰذا امتحان گاہ سے نکلنے کے بعد انھیں معلوم ہوا کہ ایسی بھی گڑبڑ ہوئی۔ اب ایسی صورت میں تو امیدواروں کے صحیح جواب بھی غلط ہو جائیں گے، اور امتحانی مراکز کے نا اہل لوگوں کی غلطیوں کا خمیازہ امیدواروں کو بھگتنا پڑے گا۔
قابل غور بات یہ بھی ہے یہ امتحان صرف ان اسکولوں میں تقرری کے لیے منعقد کرایا گیا تھا جو مرکزی سطح پر پورے ملک میں ایک ادارے کی جانب سے چلائے جاتے ہیں مثلا کیندریہ ودیالیہ وغیرہ۔ ریاستی سطح پر چل رہے اسکولوں میں تقرری کے لیے اگرریاستی انتظامیہ سی ٹی ای ٹی کے معیار کو مان لیتی ہے تو ٹھیک ورنہ ان کو اختیار ہے کہ وہ ریاستی سطح کے اہلیتی امتحانات منقعد کرائے۔ اب ایسی صورت میں سی ٹی ای ٹی میں کامیاب امیدوار ایسی امید نہیں لگا سکتے کہ وہ ریاستی سطح کے سرکاری اسکولوں میں تقرری کے اہل ہیں بلکہ ان کو یاستی سطح کے اہلیتی امتحانات کے معیار پر بھی کھرا اترنا پڑ سکتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اکثر و بیشتر امیدواروں کا کہنا ہے کہ ایسے امتحان کیوں منعقد کرائے جار ہے ہیں جبکہ اساتذہ کی تقرری کے لیے امیدوار پہلے سے ہی ٹیچر ٹریننگ کورس کرکے اس کے اہل ثابت ہو چکے ہیں تو دوبارہ ان کے معیار کو کیوں پرکھا جارہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے تو ان کی ٹیچر ٹریننگ کورسز کی ڈگریاں بے معنی سی ہو کر رہ جائیں گی۔ یہ بھی خیال رہے کہ اس امتحان میں کامیاب ہونے والا امیدوار اس بات کا مجاز نہیں ہوگا کہ اس کو سرکاری سطح پر اسکول کا استاذ مقرر کیا جائے بلکہ اس کو اسکول کی جانب سے تقرری کے لیے منعقد امتحان سے بھی گزرنا ہوگا۔ گو یا کہ اب ایک استاذ بن کر قوم کی خدمت کرنے کے لیے سب سے پہلے اسے ٹیچر ٹریننگ کی ڈگری حاصل کرنی ہوگی، اس کے بعدبھی اس طرح کے امتحان میں کامیاب ہونا پڑے گا۔ اور ا سکے بعد پھر ایک مرتبہ اساتذہ کی آسامی کو پُر کرنے کے لیے منعقد امتحان میں پاس ہوکر میرٹ میں سب سے اوپر اپنی جگہ بنانی ہوگی۔
میں اپنی اس تحری کے ذریعہ ان آٹھ لاکھ لوگوں اور مستقبل میں مزید پیدا ہوانے والے امیدواروں کی ترجمانی کرتے ہوئے حکومت وقت سے ، مرکزی اور ریاستی سطح کے وزرائے تعلیمات سے، تعلیمی محکموں میں اعلی عہدوں پر فائز سربراہان سے، اکیڈمیوں کے ذمہ داران، غیر سرکاری تنظیموں اور انجمنوں کے عہدے داروں سے دردمندانہ اپیل کرتا ہوں کہ ایسے امتحانات منعقد کرانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے اور اگر ماہر تعلیمات اور ماہر نظم ونسق ایسا سمجھتے ہیں کہ اس کی ضرورت ہے تو مذکورہ بالا پریشانیاں دور کی جائیں۔ اگر ایسا ہی رویہ رہا تو ممکن ہے کہ کسی دن یہ بڑی تعداد میں حکومت وقت کے خلاف سڑکوں پر اتر سکتی ہے۔

Monday, April 18, 2011

آن لائن اردو صحافت


اکیسویں صدی یعنی سائنس و ٹیکنالوجی کی صدی، اس دور میں دنیا اتنی سمٹ گئی ہے کہ ایک کیفے کے مانند معلوم ہوتی ہے اور اس کی وجہ ہے انٹرنیٹ کی آمد..... جو لوگوں کو ایک زنجیر میں باندھ کر ایک دوسرے سے رابطہ رکھنے کی سہولت عطا کرتا ہے۔ انٹرنیٹ سے
connect
ہونا دریا کو کوزے میں بند کرنا ہے ۔ انٹرنیٹ کے کیا فوائد ہیں اور کیا نقصانات ،ہر تعلیم یافتہ شخص اس سے بخوبی واقف ہے۔اپنے مافی الضمیرکو دوسروں تک کسی بھی شکل میں پہنچانے کے ذرائع انسانی زندگی کے جزء لا ینفک ہیں۔ اس جہانِ آب و گل کی ابتداء ہی سے انسان اپنے احساسات و خیالات کو مختلف شکلوں میں دوسروں تک پہنچاتا رہاہے۔ ہر دور میں انسانی ذہنوں نے مختلف قسم کے ذرائع ابلاغ ایجاد کیے ہیں۔پہلے اخبارات پھر ریڈیو اور ٹیلی ویژن نے صحافت کو ترقی کی راہ پر بہت آگے پہنچادیا اوراب انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کے وجود میں آنے کے بعد سے حالیہ دہائی میں صحافت کی دنیا میں انقلاب آیا اور آن لائن صحافت کا آغاز ہوا۔

انٹرنیٹ بھی میڈیا کا ایک حصہ ہے لہذا میڈیا پر بھی اس کے اثرات پڑے ہیں اور آن لائن صحافت یا آن لائن
جرنلزم کا دائرہ بھی کافی وسیع ہو ا ہے۔آج دنیا بھر میں بے شمار آن لائن اخبارات ورسائل ہماری معلومات میں اضافہ کے لئے موجود ہیں۔اور ایک اہم بات یہ ہے کہ آن لائن اخبارات و رسائل اپنی سوچ اور اپنے نقطہ نظر کے حوالے سے کافی وسیع القلب اور وسیع النظر ثابت ہوئے ہیں۔پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی تنگ نظری آن لائن جرنلزم میں کم نظر آتی ہے۔جو لوگ اس شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں ان کی سوچ کافی کھلی ہوئی ہے اور وہ کافی لبرل ہیں۔اس کے علاوہ اس میں موضوعات کا تنوع بھی ہے اور مخالف نقطہ نظر کے لئے بہت حد تک گنجائش بھی ہے۔اگر کسی مضمون پر کسی کی مخالفانہ رائے آتی ہے تو اسے بھی مناسب انداز میں جگہ دی جاتی ہے۔

انٹرنیٹ جاننے اور اس پر کام کرنے کے لئے اب انگریزی کا جاننا ضروری نہیں رہ گیا ہے بلکہ اب کئی ہندوستانی زبانیں بھی انٹرنیٹ پر آگئی ہیں اور وہ لوگ بھی جو چند سال قبل انٹرنیٹ سے گھبراتے تھے، اب اس پر کام کرنے لگے ہیں۔ وہ ای پیپرس پڑھ رہے ہیں، ای میل بھیج اور وصول رہے ہیں، بلاگ لکھ رہے ہیں اور اپنی زبانوں میں ویب سائٹ لانچ کر رہے ہیں۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دو امریکی کمپنیوں مائکرو سافٹ اور گوگل نے اسے ممکن کر دکھایا ہے۔ایک دہائی قبل تک انٹرنیٹ پر ہندوستانی زبانوں کے استعمال میں بہت دشواریاں تھیں۔ فونٹس اور ’’کی بورڈ‘‘ یکساں نہیں تھے۔جس کی وجہ سے کسی بھی ہندوستانی زبان کو پڑھنا آسان نہیں تھا۔لیکن ہندی اور اردو کے لئے یونی کورڈ سپورٹ کی ایجاد نے سب کچھ بدل دیا ہے اور اب یہ سارا مرحلہ بہت آسان ہو گیا ہے۔
انٹرنیٹ پر اردو کے سلسلے میں بھی بہت کچھ کام ہوا ہے اور اس بارے میں اہم رول اردو لائف ڈاٹ کام نے ادا کیا ہے۔اس ادارے کا عزم اردو کو دنیا کی دیگر زبانوں کے مقابلے پر لانا ہے۔شروع میں اس پر صرف اردو کارڈ اور فیکس کی سہولیات میسر تھیں۔لیکن بعد میں اس کا دائرہ بڑھایا گیا اور اور سب سے پہلے اردو کا ایک پلگ ان ڈیولپ کیا گیا۔جس کے ذریعے ٹرو ٹائپ اردو فونٹس کو ویب سائٹ پر متعارف کرایا گیا۔بعد میں اس میں محفل مشاعرہ اور دوسری بہت سی ادبی چیزیں شامل کی گئیں۔اردو فونٹس کی تیاری ایک صبر آزما اور دشوار گزار مرحلہ تھامگر اردو لائف نے اس میں بھی کامیابی حاصل کر لی۔

آج ویب پر صفحات دیکھنے والوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ہندی وکی پیڈیا کی مقبولیت بڑھی ہے۔ اس کا آغاز جولائی 2003میں ہوا تھااور اب تک اس میں 36ہزار سے زائد مضامین ہو چکے ہیں۔جبکہ اردو وکی پیڈیا کا آغاز جنوری 2004میں ہوا اور اس میں تقریباً بارہ ہزار مضامین موجود ہیں۔کوئی بھی ایسا شخص جو انگریزی نہیں جانتا ہے،اردو وکی پیڈیا سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔اس کے لئے
http://ur.wikipedia.org/
پر جا کرمضامین تلاش کرکے ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔انگریزی سے ناواقف افراد کے لئے جدید معلومات حاصل کرنے کا یہ ایک عمدہ ذریعہ ہے۔اس پر عربی اور فارسی زبانوں میں بھی سہولیات موجود ہیں۔

آن لائن اردو صحافت کی بات کی جائے تو یہ اردو صحافت بھی انٹرنیٹ پر دیگر زبانوں کے بالمقابل کھڑی نظر آتی ہے۔ اردو زبان میں بھی بے شمار اخبارات و رسائل موجود ہیں جن سے کسی بھی وقت استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ ان میں تو بیشتر وہ اخبارات اور رسائل ہیں جو پرنٹ میڈیا میں شائع ہوتے ہیں جیسے راشٹریہ سہارا، منصف، سیاست، اردوٹائمز، صحافت ، دی سنڈے انڈین وغیرہ۔ لیکن ان کے علاوہ بھی ایک کثیر تعداد اخبارات و رسائل کی انٹر نیٹ پر موجود ہے جواردومیں آن لائن صحافت کی ذمہ داری نبھارہے ہیں۔اسی طرح ایسے کئی ریڈیو اسٹیشن اور نیوز چینل ہیں جو اردو میں خبریں نشر کرتے ہیں۔ ان کی سائٹس اردو زبان میں بھی ہوتی ہیں ۔ مثلاً بی بی سی، وائس آف امریکہ، ریڈیو جرمنی وغیرہ۔ ان کی سائٹس پر اردو زبان میں خبریں ، کالم، مضامین، فیچراور تحقیقی مضامین بھی ہوتے ہیں۔ ان سائٹس کی دنیا ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی دنیا سے یکسر مختلف ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کئی ایسی سوشل نیٹ ورک سائٹس ہیں جن پر صحافت کی جھلک نظر آتی ہے اور ان پر اردو زبان میں بھی بہت کچھ لکھا جارہاہے مثلاً فیس بک، آرکُٹ، ٹویٹر، ہائی فائیو وغیرہ۔

اسی طرح بلاگ نویسی نے بھی صحافت کی دنیا میں اپنا ایک الگ مقام بنا لیا ہے۔ ایک طرح سے بلاگ، ویب سائٹ کا ہی حصہ ہوتا ہے جس پر کسی فرد کی جانب سے پابندی کے ساتھ خیالات، احساسات، واقعات وغیرہ متن یا متن کے ساتھ ساتھ سمعی و بصری صورتوں میں پیش کیا جاتا ہے ۔ بلاگ نویسی کے میدان پر اگر طائرانہ نظر دوڑائی جائے تو مختلف قسم کے بلاگ نظر آئیں گے مثلاً ذاتی بلاگ جس میں ایک فرد اپنے خیالات اور اپنے تبصرے نیز دیگر چیزیں نیٹ صارفین کے سامنے پیش کرتا ہے گرچہ اس کے بلاگ کو پڑھنے والے خال خال ہی ہوں لیکن وہ ایک ذاتی ڈائری کی طرح خامہ فرسائی کرتا رہتا ہے۔تجارتی مقصد کے تحت بھی بلاگ لکھے جاتے ہیں جس کے ذریعے ایک کمپنی اپنے پروڈکٹ کی مارکٹنگ اور
Branding
کرتی ہے اوراپنے صارفین ودیگر عوام سے تعلقات استوار رکھنا چاہتی ہے۔ اسی طرح بلاگ موضوعاتی بھی ہوتے ہیں جیسے مذہبی، سیاسی، تعلیمی بلاگ، فیشن بلاگ، میوزک بلاگ وغیرہ وغیرہ۔ بلاگ نویسی کی یہ خاصیت ہے کہ کوئی بھی شخص کسی بھی موضوع کے تحت بلاگ نویسی کرسکتا ہے اور الگ الگ موضوعات پر الگ الگ بلاگ پیش کرسکتا ہے۔اردو زبان کے حوالے سے اگر بلاگ نویسی کا جائزہ لیا جائے تو اردوزبان میں اور اردوزبان کے تعلق سے بھی سیکڑوں بلاگ اپنی جانب متوجہ کرتے نظر آئیں گے۔بعض بلاگ تو ایسے ہیں جو اردو زبان و ادب سے متعلق ہیں مگر وہ انگریزی زبان میں ہیں یااردو زبان میں انگریزی حروف اور انگریزی رسم الخط میں ہیں۔ دیگر زبانوں کی طرح اردو زبان نے بھی انٹر نیٹ کی دنیا میں اپنی جگہ اور شناخت قائم کرلی ہے اور بتدریج اس کا دائرہ مزید بڑھتا جا رہا ہے۔اور اردو رسم الخط میں اپنے ہاتھ پیر پھیلا رہی ہے ۔ لہٰذا بلاگ نویسی میں بھی انگریزی حروف اور رسم الخط میں اردو زبان کے ساتھ ساتھ اردو رسم الخط میں بھی بلاگ لکھے جا رہے ہیں۔اردو زبان میں بلاگ لکھنے کے لیے یونی کوڈ فونٹ کی مدد لی جاتی ہے جو ہر کمپیوٹر پر آسانی سے دستیاب ہوتا ہے اور ہر جگہ
accessable
ہوتاہے۔ اردوزبان میں ایسے بہت سارے برقی اخبار اور سائل و جرائد ہیں جن کی ویب سائٹس پر اردو زبان میں بلاگ پڑھے اور لکھے جا سکتے ہیں۔واضح رہے کہ اردو زبان میں بلاگ لکھنے کے لیے ویب سائٹ کا اردو زبان میں ہونا ضروری نہیں ہے۔ کسی بھی زبان میں موجود ویب سائٹ پر اگر بلاگ لکھنے کی سہولت مہیا ہے تو اس ویب سائٹ پر اردوزبان میں یونیکوڈ فونٹ کا استعمال کرکے بلاگ لکھے جاسکتے ہیں۔شرط یہ ہے کہ صارف کے کمپیوٹر میں اردو کی بورڈ موجود ہو جو
Language & Date Setting Tool
کے ذریعے
Instal
کیا جا سکتا ہے۔

آن لائن اردو صحافت کے حوالے سے کچھ سائٹس کا ذیل میں ذکر کیا جارہا ہے۔
بی بی سی اردو
http://www.bbc.co.uk/urdu
وائس آف امریکہ
http://www.voanews.com/urdu
ریڈیو جرمنی
http://www.dw-world.de/dw/0,,659,00.html
راشٹریہ سہارا
http://urdusahara.net
اردو ٹائمز
http://urdutimes.in
اورنگ آباد ڈائمز
http://www.aurangabadtimes.net
اعتماد
http://www.etemaaddaily.com
آفتاب
http://www.dailyaftab.com
انقلاب
http://www.inquilab.com
گواہ (ہفت روزہ)
http://www.gawahweekly.com
جدید مرکز
http://www.jadeedmarkaz.net
جدید خبر
http://www.jadidkhabar.com
ملاپ
http://www.milap.com
منصف
http://www.munsifdaily.com
صحافت
http://www.sahafat.in
سیاست
http://www.siasatepaper.com
اردو نیٹ
http://www.urdunet.in
آگ
http://www.dailyaag.com
القمر آن لائن
http://alqamar.info
ورلڈ نیوز
http://urdu.wn.com
آن لائن اردو انٹر نیشنل (ماہنامہ)
http://www.onlineurdu.com
نوائے ٹوکیو
http://www.nawaetokyo.com
شعرو سخن
http://www.sherosokhan.com
اردو ہمعصر
http://www.urduhamasr.dk
جدید ادب
http://jadeedadab.com
نوائے وقت
http://www.nawaiwaqt.com.pk
اوصاف
http://www.nawaiwaqt.com.pk
پھول( ماہنامہ)
http://www.nawaiwaqt.com.pk

*****


سلمان فیصل
رابطہ
sfaisal11@gmail.com
9891681759

Sunday, January 16, 2011

غالب کا اندازِ بیاں اور



ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
اسی اندازبیاں اور میں غالب نے اپنے بارے میں نواب علاء الدین احمد خاں بہادرعلائی کو ایک اردو خط میں جو لکھا ہے وہ حسن بیاں کا بہترین نمونہ ہے۔ بقول غالب ’’سنو عالم دو ہیں: ایک عالم ارواح اور ایک عالم آب و گل۔ حاکم ان دونوں عالموں کا وہ ایک ہے جو خود فرماتا ہے:’’ لِمَنِ المُلکُ الیَومَ‘‘؟ اور پھر آپ جواب دیتا ہے: ’’لِللٰہِ الواحِدِ القَہّارِ‘‘ ۔
ہر چند قاعدہ عام یہ ہے کہ عالم آب و گل کے مجرم عالم ارواح میں سزا پاتے ہیں لیکن یوں بھی ہوا ہے کہ عالم ارواح کے گنہگار کو دنیا میں بھیج کر سزا دیتے ہیں۔ چنانچہ میں آٹھویں رجب سنہ ۱۲۱۲ھ (۲۷دسمبر۱۷۹۷ء) میں روبکاری کے واسطے یہاں بھیجا گیا۔ ۱۳ برس حوالات میں رہا۔ ۷رجب سنہ ۱۲۲۵ھ (۹؍اگست ۱۸۱۰ء) کو میرے واسطے حکم دوام حبس صادر ہوا۔ ایک بیڑی میرے پاؤں میں ڈال دی۔ اور دلی شہر کو زنداں مقرر کیا، اور مجھے اس زنداں میں ڈال دیا۔ فکر نظم و نثر کو مشقت ٹھہرایا۔ برسوں کے بعد، میں جیل خانے سے بھاگا۔ تین برس بلاد شرقیہ میں پھرتا رہا۔ پایان کار مجھے کلکتے سے پکڑ لائے اور پھر اسی محبس میں بٹھا دیا۔ جب دیکھا کہ یہ قیدی گریز پا ہے، دو ہتکڑیاں اور بڑھادیں۔ پاؤں بیڑی سے فگار، ہاتھ ہتکڑیوں سے زخمدار۔ مشقت مقرری اور مشکل ہوگئی۔ طاقت یک قلم زائل ہوگئی۔
بے حیا ہوں۔ سال گزشتہ بیڑی کو زاویہ زنداں میں چھوڑ، مع دونوں ہتکڑیوں کے بھاگا۔ میرٹھ، مراد آباد ہوتا ہوارام پور پہنچا۔ کچھ دن کم دو مہینے وہاں رہاتھا کہ پھر پکڑا آیا۔ اب عہد کیا کہ پھر نہ بھاگوں گا، بھاگوں کیا؟بھاگنے کی طاقت بھی تو نہ رہی۔‘‘
غالب کی عظمت کا راز اس کی تحریروں میں پنہاں ہے۔ خواہ وہ منظوم ہوں یا منثور۔ اردو ادب کی یہ شخصیت دنیا جہان کے تمام ادب میں معروف و مشہور ہے۔ بقول غالب ’’شہرت شعرم بگیتی بعد من خواہدشدن‘‘ کے مصداق ان کی پذیرائی ان کی وفات کے بعد ہوئی۔ ان کاکلام خصوصاً اردو کلام عبد الرحمن بجنوری کی زبان میں ہندوستان کا الہامی کلام ہے اور دیوان غالب ہندوستان کی الہامی کتاب وید مقدس کے متوازی ہے۔
اردو ادب کے شعرا میں غالب کا وہ مقام ہے کہ ان کا مقابلہ آسانی سے دنیا کے عظیم ترین شعرا سے کیا جاسکتا ہے۔ بقول زاہدہ زیدی ’’اگر ہم انھیں شہرہ آفاق شعرا مثلاً سونوکلیز، شیکسپےئر، دانتے، گوئٹے، رومی، حافظ، ملٹن، ورڈزورتھ، کالی داس، ٹیگور، اقبال، ایلیٹ اور بوجنبومونتالے وغیرہ کے پہلو بہ پہلو رکھ کر دیکھیں تو کسی قسم کی ندامت محسوس نہیں کریں گے بلکہ بیشتر صورتوں میں غالب ہی کی عظمت کا پلڑا بھاری پائیں گے...غالب اور شیکسپےئر میں کئی اعتبار سے گہری مماثلت محسوس کی جاسکتی ہے۔ دونوں نے زندگی کو اس کی ہمہ گیری،رنگا رنگی، بوقلمونی، لطف و نشاط، محشر انگیزی، المناکی اور بے ثباتی کے ساتھ قبول کیا ہے اور اسے سفید و سیاہ کے پیمانے سے نہیں ناپا، بلکہ اس کے ہلکے، گہرے ، لطیف خوشنما، دلنواز، یاس انگیز اور دردناک سبھی رنگوں کو اپنے فن میں سمولیاہے۔ دونوں کے فن میں انسانی جذبات کا ایک شورانگیز سمندر موجزن ہے اور دونوں کی نفسیاتی بصیرتیں حیرت انگیز ہیں اور دونوں نے رنج وغم اور المناک تجربات سے نایاب بصیرتوں اورہمہ گیر وژن کی کشیدگی اور سب سے بڑھ کر یہ دونوں عظیم فنکار الفاظ کا جادو جگانے میں اور سبھی شعرا پر فوقیت رکھتے ہیں۔‘‘
غالب کا فن ایک
Miniature Painter
کے فن سے مشابہت رکھتا ہے جو ایک بہت چھوٹے سے کینوس پر ایک نازک برش کی حساس جنبش سے اور لطیف اور خوش نما رنگوں سے دلنواز نقش تخلیق کرتا رہتا ہے۔ غالب غزل کے بادشاہ ہیں اور غزل کے سیاق وسباق میں غالب کے اشعار کا کینوس محدودہوتے ہوئے بھی وسیع اور اس کی دلکشی غیر معمولی اور معنی آفرینی لا محدود ہے۔ ان کے بیشتر اشعار شدید احساسات، نادر مشاہدات اور نایاب بصیرتوں کا بیش بہا خزینہ ہیں۔
گنجینہ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کی غالب مرے اشعار میں آوے
غالب جدید ذہن کے خالق ہیں۔ بقول علی سردار جعفری ’’غالب کی عظمت صرف اس میں نہیں کہ انھوں نے اپنے عہد کے اضطراب کو سمیٹ لیا، بلکہ اس میں کہ انھوں نے ایک نیا اضطراب پیدا کیا۔ ان کی شاعری اپنے عہد کے شکنجوں کو توڑتی ہوئی ماضی اور مستقبل کی وسعتوں میں پھیل جاتی ہے۔‘‘ غالب نے غزل کے روایتی فورم کو غیر معمولی وسعت دے کر اسے زندگی کے گوناگوں تجربات احساسات، خیالات، مسائل اور گہری بصیرتوں کے اظہار کا وسیلہ بنایا۔ ان کی غزلیں تراشیدہ ہیروں کی طرح انسانی زندگی کے بے شمار رنگوں کو بیک وقت منعکس کرتی ہیں۔ بقول محمد حسن ’’غالب کے کلام میں درد و الم کے حاشیے اور آرزومندی کے بیل بوٹے دونوں ایک دوسرے سے دست و گریباں ہے بلکہ یوں کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا کہ انہی دونوں کی کش مکش سے غالب کا فن عبارت ہے۔‘‘
اس شمع کی طرح سے جس کو کوئی بجھادے
میں بھی جلے ہوؤں میں ہوں داغ ناتمامی
زندگی اپنی جو اس رنگ سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
اردو ادب میں انہی پہلو دار شاعری کی وجہ سے غالب ممتاز شاعر ہیں اور ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں۔ غالب پر اردو ادب کو فخر ہے اور اردو ادب ہندوستان کے تہذیبی نقش و نگار کا ایک نقش لازوال ہے۔ بقول سید احتشام حسین :’’غالب نے نظم و نثر میں جو کچھ لکھا ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غالب کی معلومات محض کتابی نہیں تھی بلکہ اپنی ذہانت اور ذاتی تجربہ کی وجہ سے وہ قدیم تصورات سے آگے جاناچاہتے تھے۔ نئی باتوں کو سمجھنا اور نئی انجمنوں سے دلچسپی لینا چاہتے تھے۔‘‘
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں
غالب کی عظمت کی بقا ان کی غزلیہ خصوصیات میں مضمر ہے۔ رمز وکنایات اور اختصار انھیں خصوصیات میں سے ایک ہے۔
قفس میں مجھ سے روداد چمن کہتے نہ ڈر ہمدم
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو
غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
حسن کے شیدائی غالب نے خلوص و سادگی کے ساتھ حسن کو تصوف سے قریب کرکے اپنے اشعار میں پیش کیا ہے۔
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ و عشوۂ و ادا کیا ہے
شکن زلف عنبریں کیوں ہے
نگہ چشم سرمہ سا کیا ہے
غالب کا عشق حقیقی اور مجازی دونوں تھا۔ صوفیانہ اور عارفانہ کلام غالب کی کائنات شعری میں قدم قدم پر موجود ہے۔
دل پر قطرہ ہے ساز انا البحر
ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا ہے
قطرہ میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل
کھیل لڑکوں کا ہوا دیدۂ بینا نہ ہوا
دہر جزو جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں
غالب کے تخیل کی پرواز فرش تا عرش کے تمام مظاہر کا احاطہ کرتی ہوئی عرش سے ماوراء کی تمناکرتی ہے۔
منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے
عرش سے اِدھر ہوتا کاشکے مکاں اپنا
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
غالب کی دنیائے عشق و عاشقی میں رنگینی و رعنائی کی بہار اور سرور و مستی کا لطف بھی ہے۔ طالب کاشمیری ’’جوہر آئینہ ‘‘ میں رقم طراز ہیں: ’’حسن و عشق کے جذبات واحساسات اور واردات وکیفیات کی ترجمانی کے سلسلے میں انسانی نفسیات کے رنگ میں رنگی ہوئی جیسی تصویریں غالب نے کھینچی ہیں، ان کی مثال ملنی مشکل ہے۔ معشوق کا ناز و انداز، عشوہ و ادا، شرم و حیا چھیڑچھاڑ، رازونیاز، دردِ ہجر، کیفیتِ وصل، خواہشِ بوس وکنار، لذتِ دشنام، عاشق کی سادگی،تمنا، جوشِ جنوں، ذوقِ صحرانورودی، بے اثریِ آہ، و نارسائی نالہ وغیرہ سب کچھ ان کے یہاں موجود ہے۔ غرض فطرت انسانی کے اکثر تقاضے جو جذبۂ عشق سے متعلق ہیں اور معاملہ بندی کے محرک ہوتے ہیں وہ اپنی فن کاری سے اس طرح اُجاگر کرتے ہیں کہ یہ عمل اوروں کی دسترس سے باہر ہے۔‘‘
نیند اس کی ہے، دماغ اس کا ہے، راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں
اسد بندِ قبائے یار ہے فردوس کا غنچہ
اگر وا ہو تو دکھلادوں کہ اک عالم گلستاں ہے
اسد اٹھنا قیامت قامتوں کا وقتِ آرائش
لباس نظم میں بالیدنِ مضمون عالی ہے
آل احمد سرور کے الفاظ میں ’’غالب کی شاعری ایک بالغ ذہن کی شاعری ہے جو تخیل کی مدد سے زندگی کے ان گوشوں کو دیکھ لیتا ہے جو عام نظروں سے پوشیدہ تھے۔ یہی تخلیقی تخیل انھیں ہر سطحی رومانیت اور سستے نشے کی تہی مایگی سے آشنا کردیتا ہے۔‘‘ آخر میں ظ۔انصاری کا ایک اقتباس جس میں غالب کی آفاقی شہرت کا راز پوشیدہ ہے۔ بقول ظ۔انصاری: ’’اردو کے کسی شاعر کے یہاں اتنی غزلیں یکجا نہیں ملتیں جو اول سے آخر تک منتخب اشعار کا مجموعہ ہوں یا جن میں اول درجے کے اشعار ایک ہی غزل میں اس طرح چنے ہوئے ہوں کہ خیال ایک ہی کیفیت کے مختلف پہلؤوں کا مرحلوں میں لطف لے سکے۔ ان میں باطنی رشتے کے علاوہ آوازوں اور لفظوں کا بھی حسن ہموار نظر آتا ہے۔‘‘
...................

سلمان فیصل
ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ
پتہ
370/6-A
ذاکر نگر، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔۲۵
sfaisal11@gmail.com

Sunday, November 28, 2010

کثرت میں وحدت ہندوستان کی خوبصورتی ہے


میں روز صبح مارننگ واک پر جاتا ہوں۔ علی الصباح چہل قدمی صحتِ جسم و دماغ کے لیے مفید ہے۔ صبح سویرے چڑیوں کی چہچہاٹ کے ساتھ باغ کی روِش پر چلنا مجھے بے حد پسند ہے۔اپنی اِسی عادت کے مطابق میں آج صبح پارک میں خراما خراما ٹہل رہاتھا۔ بہار کا موسم ہے۔ گل و غنچے اپنے شباب پر ہیں۔باغ میں کھلے رنگ برنگے مختلف طرح کی خوشبووں والے متنوع قسم کے پھول لوگوں کے ذہن وقلوب کو معطر کررہے تھے۔میں بھی ایک ہی قسم کے مختلف رنگوں اور خوشبووں اور مختلف النوع پھولوں کی، طرح طرح کی خوشبو ¿وں اور رنگوں سے محظوظ ہو رہا تھا۔ میرے ذہن کی اسکرین پر یکا یک خیالات کے کرداروں نے پے در پے دستک دینی شروع کردی۔ میں سوچ ررہا تھا کہ قدرت نے کیسے کیسے پھول بنائے ہیں۔ پھولوں کی ایک ہی قسم کے کئی انواع، کئی رنگ، طرح طرح کی خوشبوویں،لیکن ہیں سارے کے سارے پھول-----ان تمام پھولوں میں ایک طرح کی وحدت ہے۔ یہ تمام پھول ہیں تو مختلف طرح کے مگر لوگوں کو یہ پھول صرف فائدہ ہی پہنچاتے ہیں۔ لوگوں کے ذہن و قلوب کو راحت بخشتے ہیں اور انھیں محظوظ کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑتے۔یہ وحدت ہی تو ہے کہ ایک مالا میں کئی رنگ اور کئی قسم، اور کئی انواع کے پھول ایک ساتھ مل کر مالا کی وحدت کو قائم رکھتے ہیں۔ ایک گلدستے میں مختلف قسم کے پھول باہم مل کر جاذب نظر بنتے ہیں۔
میں ان پھولوں کے بارے میں سوچ رہاتھا کہ ایک نئے خیال نے پھر میرے ذہن کو کھٹکھٹایا کہ ارے یہ پھولوں کی کثرت میں وحدت کی مثال جو پوری دنیا کے پھولوں میں پائی جاتی ہے، ہمارے ملک ہندوستان کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔اس خصوصیت نے ہندوستان کی خوبصورتی میں چار چاند لگائے ہیں۔ کثرت میں وحدت کی یہ مثال ہندوستان کے علاوہ کسی دیگر ملک میں خال خال ہی نظر آتی ہے۔اس نئے خیال نے میرے ذہن کو ہندوستان کی سیر کرانی شروع کردی۔ کثرت میں وحدت کی مثال کے نمونے لیکر خیالات کی ایک لمبی قطار میرے ذہن کی اسکرین پر صف بستہ کھڑی تھی۔ ایک ایک کرکے خیالات آگے بڑھتے اور اسکرین پر اپنا کردار نبھا کر پیچھے ہٹ جاتے لیکن اپنے گہرے نقوش چھوڑجاتے۔
میں سوچنے لگا کہ ہم انسانوں کی ایک قیمتی چیز زبان، یعنی ذریعہ اظہار ، جس کے ذریعے ہم اپنے مافی الضمیرکودوسروں تک پہنچاتے ہیں، ہمارے ملک ہندوستان میں کئی طرح کی ہیں۔ ہندوستان کے آئین کے مطابق بولی، پڑھی ، لکھی اور سمجھی جانے والی زبانیں جہاں 24کی تعداد میں ہیں،تو وہیں صرف بولی اور سمجھی جانے والی بولیاں اس سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ یہ ہندوستان ہے جہاں قدم قدم پر لہجے بدل جاتے ہیں لیکن پھر بھی یہاں کے باشندے اپنی بات دوسروں تک پہنچادیتے ہیں اور انھیں کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوتی۔ یہ کثرت میں وحدت نہیں تو اور کیا ہے ۔ جہاں بھانت بھانت کی بولیاں ہیں اور بھانت بھانت کے لہجے۔ اور ہر زبان اورہر بولی کی ایک الگ شیرینی، اپنی الگ تاثیر اور اپنی منفرد پہچان، مگر پھر بھی ایک دوسرے کے ساتھ ہےں۔
میرے خیال نے ایک اور جست لگائی۔ یہ کیا؟؟؟ میرے ذہن کی اسکرین پر ان پھولوں کی طرح رنگ برنگے تہواروںکی جھلکیاں نظر آرہی ہیں۔یہ ہندوستان ہے۔ جہاں کثرت سے تہوار منائے جاتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جشن ہوتا ہے ۔ بچے کی ولادت سے اس انسان کی وفات تک نہ جانے کتنے تہوار منائے جاتے ہےںمختلف ریاستوں میں الگ الگ انداز میں بچے کی ولادت پر جشن منایا جاتا ہے۔ تہوار بھی ایک نہیں بلکہ ان گنت الگ الگ ریاستوں کے اپنے الگ تہوارہیں، جو اپنے اندر ایک کشش رکھتے ہیں، اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں۔ میرے خیالات تیزی سے بدلتے ہیں۔ ابھی میں ریاستوں کے تیوہاروں کی جھلکیاں دےکھ رہاتھا کہ اچانک منظر بدلتا ہے۔ یہ کیا؟ فصل کے کٹنے کے مناظر اور اس پر جشن۔ پنجاب میں بھانگڑا ہو رہا ہے تو اتر پردیش میں دیہاتی عورتیں فصل کی کٹائی، دنوائی کے ساتھ مسرور کن جشن کے نغمے گنگنارہی ہیں۔ کیرل، کرناٹک اور تمل ناڈو کے باشندوں کے خوشی منانے کے الگ طریقے۔ غرض یہاں بھی کثرت میں وحدت ہے۔ موسم ایک ہے۔ موقع ایک ہے۔ مگر جشن کے انداز جداگانہ۔۔ منظر پھر بدلتا ہے ۔ تہوار مذہبی بھی تو ہوتے ہیں ۔ عید کا دن ہے۔ ایک کثیر تعداد میں لوگ سفید لباس میں ملبوس نظر آرہے ہیں، جن کے سرو ںپر مختلف قسم کی ٹوپیاں ہیں۔ ایک عجیب مسرت و کیفیت والا منظر ہے۔ امیر غریب سب ایک ساتھ ہیں۔ عید گاہ پر میلہ لگا ہوا ہے۔ اسی میلے میں ایک صاحب ثروت و دولت کا صاحب زادہ کھلونہ خرید رہا ہے تو وہیں ایک یتیم غریب بچہ اپنی بوڑھی دادی کے لیے چمٹا خرید رہا ہے ۔اچانک ایک پچکاری میرے ذہن پر پڑتی ہے اور منظر بدل جاتا ہے۔ یہ کیا؟ یہ تو ہولی ہے۔ جہاں لوگ گلے شکوے بھول کر ایک دوسرے کو گلے سے لگاتے ہوئے رخسارو ںپر گلال مل کر لوگوں کے درمیان پیدہ شدہ تناو ¿ اور خلیج کو ختم کردیتے ہیں ۔ اور مستی کرتے ہوئے لوگوں کی آوازیں آتی ہیں برا نہ مانو ہولی ہے۔ اسی شور وغل میں مجھے بھانگڑا کی کان پھاڑنے والی آوازیں سنائی دیتی ہیں تو وہیں سرگوشی میں کسی چرچ سے عیسی مسیح کی ولادت کے جشن کا علم ہوتا ہے۔ یہ مختلف قسم کے تیوہارمختلف مذاہب کے ماننے والوں کی جانب سے منائے جارہے ہیں جو اس بات کے شاہد ہیں کہ ہندوستان کثیر اللسان ملک کے ساتھ کثیر المذاہب ملک بھی ہے جہاں ایک خدا کو کئی طرح سے پوجنے والے موجود ہیں اور ایک ساتھ مل کر اس ملک میں رہتے ہیں۔ اسی کو کثرت میں وحدت کہتے ہیں۔
پارک میں چہل قدمی کے لیے بنی روِش پر چلتے چلتے میں ایک پتھر سے ٹکراجاتا ہوں اور خیالات کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اچانک ایک کمسن دوشیزہ پر میری نظرپڑتی ہے ۔ وہ کان میں ایئر فون لگائے، گھاس پر ننگے پاوں خراماخراما اپنی دنیا میں مگن چہل قدمی میں مصروف ہے۔ جسم پر ایک ڈھیلا ڈھالا لباس ہے جس سے کسی خاص طبقے کی شناخت نہیں ہو پارہی ہے ۔ اس کو دےکھتے ہی پھرخیالات کا ایک اور جھونکا میرے ذہن پرحاوی ہوتا ہے ۔ میں پھر سے ٹہلتے ٹہلتے سوچنے لگتا ہوں کہ ہمارے ملک ہندوستان میں کیسے کیسے لوگ بستے ہیں۔ جن کی اپنی الگ الگ تہذیب ہے اور اپنی الگ شناخت ہے لیکن پھر بھی ایک ساتھ ہیں۔ ایک اور خیال میرا ہاتھ پکڑ کر دیہات کی طرف لے جاتا ہے اور وہاں کے کلچر سے روشناس کراتا ہوا قصبے سے گذرتا ہے، جہاں کی تہذیب گاوں سے مختلف ہونے لگتی ہے اور جب میں شہر میں پہنچتا ہوں تو ایک الگ ہی منظر ہوتا ہے۔ گاوں میں زیادہ اور قصبوں میں کم،لوگوں میں ایک طرح کی یکسانیت ہے ۔ لوگوں کی طرز زندگی ایک سی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہرگاوں دوسرے گاوں سے مختلف اور ہرقصبہ دوسرے قصبے سے مختلف، گویا پورے ملک میں جتنے گاوں او رقصبے اتنے کلچر لیکن شہر میں معاملہ بالکل برعکس شہر تو تہذیبوں کا سنگم ہے۔ قریب سے دےکھےں تو ایک ایک سوسائٹی اور ایک ایک بلڈنگ کے الگ الگ فلےٹوں میں طرح طرح کی تہذیب و تمد ن والے لوگ بستے ہیں لیکن ان کے درمیان ایک وحدت ہوتی ہے بھائی چارے کی، آپسی رشتے کی، ایک ساتھ رہنے کی۔ اس سے اچھی کثرت میں وحدت کی مثال اور کیا ہوسکتی ہے۔
میرے ذہن کی اسکرین پر چلنے والی متحرک فلم کا منظر بدلتا ہے اور اسکرین چار حصوں میں منقسم ہو جاتی ہے۔ چاروں خانوں میں چار مختلف چیزیں نظر آتی ہیں۔ اور چارو ں خانوں میں قدر ت کے حسین نظارے ہیں۔ جو قدرت نے ہمیں خصوصی طور پرعطا کیے ہیں۔ ایک حصے میں راجستھان کی خشک پہاڑی علاقوں کا منظر ہے تووہیں دوسرے حصے میں جموں و کشمیر کی سرسبز وادیاں اپنے جلوے بکھیر رہی ہیں۔ ایک حصے میں خشکی کا سماں ہے تو دوسرے میں پانی ہی پانی۔ کہیں گرمی کی شدت کا منظر مجھے پسینے پسینے کردیتا ہے تو کہیں لداخ جیسے سرد علاقوں کے مناظر اور یخ بستہ ہواووں سے پورے جسم میں جھر جھری پیدا ہوجاتی ہے۔ ایک حصے میں ریگستانی علاقے کی تپش ہے تو دوسری جانب سمندری علاقوں کے خوش نما مناظر۔خالق کائنات نے جو ہمیں قدرتی چیزیں دی ہیں اس میں بھی کثرت میں وحدت ہے۔ ایک ہی ملک میں وہ ساری چیزیں دے دی ہیں جو پوری دنیا میں الگ الگ جگہوں پر پھیلی ہوئی ہیں۔ گویا پورے ہندستان کے ذرے ذرے میں کثرت میںوحدت کا راز پنہاں ہے۔ جو اس ملک کی خوبصورتی کو دوبالاکرتا ہے۔
میں باغ کی روش پر ٹہلتے ٹہلتے ان خیالات میں غرق تھا کہ شعاع آفتاب کی تمازت مےرے ان خیالات پر بریک لگاتی ہے اور میں اپنی حقیقی دنیا میں آجاتا ہوں۔ گھڑی پر نظر پڑی۔۔۔۔۔وقت زیادہ ہوچکا تھا۔ میں پارک سے نکل کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہواگھر کی جانب چل پڑا۔۔۔