Sunday, August 9, 2009

شعلہ کائنات : محبت


محبت ایک ایسی شی ہے جو ہر مخلوق کے اندر پائی جاتی ہے۔یہ اس کے اندر کی ایک ایسی عظیم طاقت ہے جو کسی بھی طرح کے دشمن کو زیر کرسکتی ہے۔بغیر محبت کے جذبہ کے کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہو سکتا گرچہ وہ صدیوں تک زندہ رہے مگر بلوغت اور رسیدگی میں سوائے ایک شیر خوار کے کچھ بھی نہیں۔ محبت کے جذبے سے محروم افراد نہ تو کسی سے پیار کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے اندر محبت کی حس ہوتی ہے۔ ایسے لوگ ہمیشہ اپنی انا کی تاریکی میں غرق رہتے ہیں۔

ہر شیر خوار کا سامنا سب سے پہلے محبت سے ہوتا ہے۔ وہ رحم اور تلطف کے جذبے کو محسوس کرتا ہے اور پیار و محبت کے جذبے سے سرشار دل کی دھڑکنوں کے ساتھ پروان چڑھتا ہے۔ کم سنی کے بعد ہو سکتا ہے کہ یہ جذبہ اس کے اندر باقی رہے یا وہ اس سے محروم ہو جائے اور اس کی تلاش و جستجو میں ہمیشہ سرگرداں رہے۔

تابدار آفتاب کے رخ پر بھی محبت کی علامت ہوتی ہے۔ آبی بخارات اسی محبت کے لیے پرواز کرتے ہیں اور یہ محبت کی طاقت ہی ان کو اڑاکر آسمان میں لے جاتی ہے۔ اور پھر زمین سے محبت کی وجہ سے ابر رحمت بن کر برستے ہیں۔ جشن بہاراں ہوتا ہے۔ ہر پھول محبت کے جذبے سے سرشار ہوکر کھل اٹھتا ہے۔ محبت سے بھر پور پھولوں کی پتیوں پر شبنم کا رقص نم ہوتا۔ تمام چرند پرند باہم مل کر محبت کے گیت گاتے ہیں اور چہچہاتے ہیں۔

دوسروں کا خیال کرنا اور دوسروں کے لیے جینا انسان کی ایسی نیک ، صالح خصوصیات ہیں جو ہر انسان کو اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے۔ یہ خصوصیات محبت ہی کی دین ہے۔ عظیم شخص وہ ہے جو اپنے اندر محبت او ررحم و کرم کا جذبہ رکھتا ہے اور دل کو بغض و عناد سے پاک صاف رکھتا ہے۔

کسی بھی شخص کے دل کو جیتنے کا سب سے آسان اور چھوٹا راستہ محبت ہے۔ تمام انبیاءکرام کا بھی یہی شیوہ رہا ہے ۔ ایسے لوگوں کے لیے کسی کے بھی دروازے بند نہیں ہوتے ہیں ، اگر شاذ و نادر کہیں کوئی دروازہ بند بھی ہوتا ہے تو اس کے لیے دیگر ہزاروں لاکھوں در وا ہوتے ہیں۔ اگر کوئی کسی کے دل میں محبت کے راستے داخل ہوتا ہے تو زندگی کے تمام مسائل کامیابی کے ساتھ حل ہو سکتے ہیں۔
Key Word: Love, Mohabbat, rahm, talattuf, pyaar, peyar,ishq, ishk

Saturday, July 25, 2009

میں موت ہوں

میں موت ہوں۔ مجھ سے کسی کو راہ فرار نہیں۔ ہر ذی روح کو میرے آغوش میں آنا ہے۔ ہر نفس کی میرے دربار میں حاضری ضروری ہے۔ جو مجھ سے بھاگتا ہے اس کو میں دوڑ کر پکڑ لیتی ہوںاور جو مجھ سے قریب ہونا چاہتا ہے، میں اس کو جلدی لفٹ نہیں دیتی۔
مجھے ذی روح کواپنی بانہوں میں بھرنے میں بڑا مزہ آتا ہے۔میں کبھی فرداً فرداً ہر نفس سے گلے ملتی ہوں اور کبھی میرا دامن اتنا وسیع ہو جاتا ہے کہ لاکھوں لوگ بیک وقت ایک ساتھ میری گود میں سما جاتے ہیں۔ میں نہ وقت، نہ جگہ، نہ کوئی لمحہ دیکھتی ہوں میں تو کبھی بھی چپکے سے دبے پاوںچلی ٓتی ہوں کہ میری آہٹ کا ہوا تک کو علم نہیں ہوتا اور کبھی علی الاعلان بنانگ دہل دندناتی ہوی آتی ہوں کہ جہاں سے میرا گذر ہوتا ہے وہاں کے ذی روح تھر تھر کانپنے لگتے ہیں اور ان پر غشی طاری ہوجاتی ہے۔ کبھی کبھی یہ غشی ایسی طاری ہوتی ہے کہ مری لوریاں اسے ہوش میں آنے نہیں دیتیں اور اس کو ابدی نیند میں غرق کردیتی ہیں۔
اس دنےا کے قیام سے اب تک میںایسی واحد ملکہ ہوں جس کی حکومت ابھی تک قائم ہے۔ میری بادشاہت میں کبھی زوال نہیں آیا، میری حکومت کا سورج ابھی تک غروب نہیں ہوا اور میں تاقیامت حکومت کرتی رہوںگی۔ میری حکومت کی داستان بہت قدیم، روشن اور تاب ناک ہے۔ میرے دست مزاحمت سے اب تک کوئی بھی بچ نہیں سکا ہے۔ میرے حملے کبھی بھی ناکام نہیں ہوئے ہےں۔ میں نے ہر جنگ جیتی ہے۔ ناکامی کسے کہتے ہیں مجھے اس کا علم نہیں، اور شکست کا احساس کیسا ہوتا ہے میں نے کبھی محسوس نہیں کےا۔ میں نے شب خوں مارا تو بھی کامیاب ہوئی۔ میری راہ میں جو جو بھی روڑے اٹکاتے ہیں میں ان کو بھی نہیں بخشتی۔
میں کسی بھی صورت میں آسکتی ہوں۔ میرے اندر ہر روپ اختیار کرنے کی صلاحیت ہے۔ کبھی موذی حیوان کی شکل میںآتی ہوں تو کبھی آگ کی شکل میں، کبھی زلزلہ بن کر حملہ آور ہوتی ہوں تو کبھی سنامی جیسے بھیانک طوفان کی شکل میں۔مرض بن کر آنا تو میرے روز کا معمول ہے۔ کبھی خطرناک مرض تو کبھی خفیف مرض کی صورت میں۔
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ”تمہاری“ باری ہے

Friday, July 17, 2009

کمپیوٹرکے پرتشدد کھیل اور معصوم بچپن

کمپیوٹر گیم کو دو زمروں میں رکھا جا سکتا ہے۔ پہلا زمرہ جس میں وہ شامل ہیں جو قابلیت اور صلاحیت کی نشوونما ، زندگی کے تجربات کی سمجھ اور اخلاقی اقدار کو دلچسپ اور پر لطف طریقے سی پیدا کرنے میں معاون ہوں۔ دوسرے زمرے میں وہ کھیل شامل ہوںگے جو بچوں کی تخییلی و فکری صلاحیتوں کوپروان چڑھانے میں ذرا بھی مددگار نہ ہوں بلکہ ان کو پرتشدد اور غیر اخلاقی برتاو¿ اور غیر مہذب طور طریقی کے لیے برانگیختہ کریں۔کھیل کا مثبت اثر یہ ہے کہ اس سے بچوں کی ذہنی،جسمانی اور روحانی نشوونما ہو اور یہ نشوونما اس گیم کے مواد اور اس کی durationپر منحصر ہے۔ اس طرح کے کھیل کی مدت نہ تو بہت مختصر ہو اور نہ بہت طویل۔ اس معاملے میں توازن برقرار رکھنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں بچوں کو وقت کا صحیح اور مناسب استعمال کرنے والی تعلیم سے آراستہ کرنا ہوگا۔ غیر ضروری سرگرمیوں میں اپنا وقت برباد کرنے والے بچے بڑے ہوکر اپنے وقت کے مو¿ثر اور کارگر استعمال کے تئیں بے حس ہو جاتے ہیں۔مختصراً یہ کہ بچوں کو وقت کی اہمیت کا شعور اور احساس ہونا چاہئے۔ کمپیوٹر کے سامنے وقت کی بربادی بچوں اور نوجوانوں کو سست اور غیر متحرک بنادیتی ہے اور اس سی بچوں میں ذہنی تناو¿ بھی پیدا ہوتا ہے۔ خاص طور سے چاک و چوبند بچوں میں یہ سستی توانائی(energy) کے اجتماع کا سبب بنتی ہے جس سے بچوں کے برتاو¿ پر منفی اثر پڑتا ہے۔مختلف طرح کے کھیلوں میں بے شمار توانائی کا استعمال بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما کے لیے بہت مفید ہے نیز اس سے بچوں میں سماجی شور بھی پیدا ہوتا ہے۔ جبکہ کمپیوٹر کے سامنے وقت گذاری بچوں اور نوجوانوں کوکلچرل سرگرمیوں سے محروم کردیتی ہے۔
اکثر والدین کی شکایت رہتی ہے کہ ان کے بچے صحیح طریقے سے اپنے مافی الضمیرادا نہیں کرپاتے ہیں۔ جب وہ اپنے بچوں سے کوئی سوال کرتے ہیںتو وہ بالکل مختصر یا رٹے رٹائے جملوں میں جواب دیتے ہیں۔ یہ رویہ کمپوٹرکے سامنے بے مقصد وقت گذاری کا ہی نتیجہ ہے۔ بات چل رہی تھی کمپیوٹرگیم کی...... آج کل کے پروڈیوسرز ہر وہ طریقے اپناتے ہیں جوبچوں کو اسکرین کی جانب کھینچ کی جانب لائیں۔ گرچہ وہ مناظر بچوں کی عمر کے شعور کے مناسب نہ ہوں۔ وہ بچے جو پرتشدد مناظر زیادہ دیکھتے ہیںوہ جارحیت اور شدت پسند ہوتے ہیں نیز وہ غضبناک طبیعت کے مالک بھی ہوجاتے ہیں۔ ایسے بچے جو متشددفلمیں زیادہ دیکھتے ہیںاور پرتشدد گیم کھیلتے ہیںوہ ان اعمال کو اپنی زندگی میں بھی دوہرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے بچے مارپیٹ، لڑائی جھگڑا بہت زیادہ کرتے ہیں۔ تخریبی اور متشدد مناظر بچوں میں نیند میں خلل اور غیر فطری برتاو¿ جیسی پریشانیاں بھی پیدا کرتے ہیں۔
کمپیوٹر کی نقصاندہ گیم بچوں کو اپنی تہزیب و تمدن سے بھی عاری کرتے ہیں۔ اس طرح کے گیم بچوں کو ایک ایسی دنیا کی سیر کراتے ہیں جہاں بی ہنگم لباس، چجیب و غریب hairstyls اور لوازمات میں ہتھیار شامل ہوتے ہیں۔ اس طرح کی دنیا میں اخلاق و اقدار کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ والا معاملہ رہتا ہے۔کمپیوٹر پر گتم کھیل کر اپنا وقت برباد کرنے والے بچے زیادہ تر اپنے ماحول سے بے گانے ہوجاتے ہیں اور ایسے بچوں کے دوست بھی کم ہوتے ہیں لہٰذا وہ کمپیوٹر کے غلام بن جاتے ہیں اور معاشرے ان کا رابطہ منقطع ہو جات ہے۔ کمپیوٹر ہی ان کا دوست ہوتا ہے نتیجةً وقت کی بربادی کے ساتھ ان کے اندر تنہائی کا بہت زیادہ احساس ہوتا ہے۔ اس لیے والدین کوچاہئے کہ وہ اپنے بچوں کومناسب سرگرمیوں میں ملوث رکھیں اور معقول حد تک کمپیوٹر گیم کے لیے وقت صرف کرنے دیں۔
کمپیوٹر کے بہت سارے برے کردار بچوں کی شخصیت کی نشوونما پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔ یہ بات یقینی ہے کہ اس طرح کے گیم سے جو پیغام بچوں تک پہنچتا ہے جیسے مضبوط،طاقت ور اور ناقابل چیلینج بننا،دوسروں کی زندگی کے تئیںبے اعتنائی برتنا، اپنے مفاد کے لیے دوسروں کو ختم کرنا، اخلاقی اقدار سے متنفر ہونا، دوسروں کے احساسات کو حقیر سمجھنا، معمر اور قد آور شخصیات کی بے ادبی، ان سب باتوں سے بچوں کی شخصی نشوونما پر منفی اثر پڑتا ہے۔ اس طرح کے گیم سے بچوں کی آموزشی صلاحیتوں پر ناپسندیدہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کمپیوٹر کے اشکرین پر تیزی سے بدلتے مناظر بچوں کو ذہنی انتشار میں مبلتا کرتے ہیںجو آموزشی عمل کو متاثر کرتے ہیں۔ مزید برآں اسکرین کی تیز روشنی کچھ بچوں کے لیے مرگی کے دورے جیسی بیماری کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔
الغرض یہ کہ کمپیوٹر گیم بچوں کے اندرےہ احساس پیدا کرتا ہے کہ زندگی بھی ایک کھیل ہے۔ کمپیوٹر گیمز بچوں کو گیم کے کرداروں کے بارے میں بہت زیادہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں اور بچے چاہتے ہیں کہ وہ ذہنی اور جسمانی طور پر ہمیشہ ان کرداروں کے ساتھ رہیں۔ بہت زیادہ کمپیوٹر گیم کھیلنے والے بچوں کا نظریہ اصلی زندگی میں بھی وہی ہو جات ہے جو نظریہ گیم کے اندر موجود ہوتا ہے۔ وہ اپنے اقربا اور احباب سے بھی اسی طرح کا برتاو¿ کرتے ہیں۔ وہ اصل اور خیالی زندگی میں تمیزکرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ مزید ان کی شخصیت میں غیر سماجی برتاو¿ کا اضافہ ہوتا ہے۔
ہم یقینی طور پر کمپیوٹر کے مفید پہلو کونظرانداز نہیں کرسکتے جو اس دور میں بہت ضروری ہیں۔ لیکن یہ اس وقت بہتر ہوگا جب اس کی مثبت خدمات کو قبول کیا جائے اور اس کے نقصانات سے محفوظ ہونے کو یقینی بنایاجائے۔بچوں کی جسمانی نمو اور بالیدگی کے لیے کھیلنے کے اوقات کو مناسب طریقے سے فی الواقع اور ہم جماعتی کھیل میں تقسیم کرنا ضروری ہے۔اس کے لیے مندرجہ ذیل کھیل موزوں ہو سکتے ہیں۔٭ایسے کھیل جس میں بچے activeکردار ادا کرسکیں٭ایسے کھیل ماہرین کی طرف سے تجویز کردہ ہوں٭ایسے کھیل جو بچوں کے اندر قومی بیداری اور تہذیبی پہچان پیدا کرے٭ایسے کھیل جو بچوں کی ذہن و فراست اور فہم و ادراک میں اضافہ کرے٭ایسے کھیل جو بچوں میں تبادل خیال، جماعتی روح،دوسروں کا خیال، خلوص اور جاں فشانی جیسی صفات پیدا کرنے میں معاون ہوں٭ایسے کھیل جو تجسس پر ابھاریںاور آموزش کو دلچسپ بنائیں٭ایسے کھیل جن میں بچے والدین کو بھی شامل کرسکیں٭ایسے کھیل جوبچوں کی اندر فرائض اور ذمہ داریوں کو بخوبی نبھانے کا جذبہ پیدا کریں۔٭ایسے کھیل جو بچوں کی تخییلی نشوونما، فکری صلاحیت، تفتیشی و اختراعی لیاقت و قابلیت کوبڑھانے میں معاون و مددگار ہوں

اگر ہم خلاق عالم کی طرف سے عطا کردہ آنکھ، کان اور دیگر اعضاءو جوارح کو کمپیوٹر گیم میں مشغول رکھیں گے تو ان کا فطری اور اصلی مقصد فوت ہو جائے گا۔ اسی لیے والدین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی رہنمائی میں بہت محتاط اور باخبر رہیںاور بچوں کے لیے ایک ایسا ماحول تیار کریں جو انھیں ایک دلچسپ اور وافر آموزشی پس منظر فراہم کرے اور ان کی ذہنی قابلیت کو بام عروج پر پہنچادے۔
Published in UMANG of Rashtriya Sahara Urdu

Wednesday, June 3, 2009

SMILE : مسکراہٹ

مسکرانا ایک فطری امر ہے۔ قدرت نے انسان کو مسکان عطا کرکے ایک بڑے عطیہ سے نوازا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قدرت نے جو بھی چیزیں عطا کی ہیں وہ لا جواب ہیں اور بے مثال ہیں۔ان کا کوئی ثانی اور نظیر نہیں ہے۔مسکراہٹ بھی انہیں عظیم نوازشوں میں سے ایک ہے۔مسکراہٹ سے معلوم ہوتا ہیکہ آدمی خوش ہے لیکن کبھی کبھی انسان غموں کے سیلاب میں بھی مسکراہٹ کی نیّا کھیتے ہوئے نظر آتا ہے۔وہ اندر سے ٹوٹ چکا ہوتاہے مگر اپنی مسکراہٹوں کے ذریعہ لوگوں سے اپنے آپ کو خوش و خرم ظاہرکرنا چاہتا ہے۔بعض لوگ اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور کچھ لوگوں کی چوری پکڑی جاتی ہے۔مسکراہٹ اپنے اندر بہت معانی رکھتی ہے۔ موقع و محل کے لحاظ سے اس کے محتلف معنی اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ مثلاً کسی سوال کے جواب میں مسکراہٹ کا اظہار کیا جائے تو عموماً اس سے رضا مندی ظاہر ہوتی ہے۔ ایک انسان اپنی مسکراہٹ کے ذریعہ لوگوں کومتوجہ بھی کرسکتا ہے اور کبھی اس کی مسکان مخاطب کے لئے سم قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔ جو شخص اکثر مسکراتا رہتاہے لوگوں سے مسکراکر مخاطب ہوتا ہے، لوگ بھی اس سے جلد متاثر ہوتے ہیں، بہت جلد اس سے مانوس ہو جاتے ہیں اور اس شخص سے ہنسی خوشی ملتے ہیں۔ وہ شخص اپنی مسکراہٹ کے ذریعہ کافی لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے لیکن اس شخص کی دوسری عادتوں پر مبنی ہے کہ لوگ کب تک اس کا گرویدہ رہیں گے۔ جیسے ایک مالی پودا لگاتا ہے اور اس میں کامیاب بھی ہوتا ہے لیکن اگر اس کی دیکھ بھال نہ کرے تو وہ پودا سوکھ جاتاہے۔فرض کیجئے اگر مسکراہٹ نہ ہوتی تو کیا ہوتا؟؟؟؟؟ ہر طرف اداسیاں ہوتی، لوگ اترے اترے چہروں کے ساتھ نظر آتے، ان پر کوئی رونق نہیں ہوتی، پوری دنیا کا منظرعجیب سا ہوتا، جیسے کسی میت کے ارد گرد موجود لوگوں کی حالت ہوتی ہے۔سکون و سنّاٹا طاری ہوتا۔ لوگ باتیں بھی کرتے تو اس میں روکھا پن ہوتا، روکھی روکھی زندگی ہوتی۔ مگر یہ فضل الٰہی ہے کہ ہم کو اس نے مسکرانا سکھایا، مسکراہٹ جیسی عظیم شئی سے نوازا۔ اسی مسکراہٹ نے ہماری زندگی میں میٹھے میٹھے رس گھولے اور لوگوں کو ہشاش بشاش بنایا۔ اسی مسکراہٹ نے ہمارے چہروں پر رونق عطاکی۔۔۔

Sunday, May 17, 2009

سو چوہے کھاکے بلی چلی حج کو


ایک بہت پرانی کہاوت ہے کہ ”سو چوہے کھاکے بلی چلی حج کو“۔ اس کا استعمال کب اور کہاں ہوتا ہے ہر شخص بخوبی جانتا ہے ، لیکن اس کہاوت پر کبھی کسی نے غور کیا.....؟ اس مثل میں دو باتیں ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ بلی نے سو چوہے کھائے ہیں۔ اس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ بلی اب تک سو چوہے اپنے حلق سے نیچے اتار چکی ہے، دوسرا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ گویا اس نے 100قتل کرڈالے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اب سو قتل کرنے کے بعد بلی تائب ہونے چلی ہے تو کیا اس کی توبہ قبول ہوگی؟؟؟
اب آپ غور کیجیے کہ بلی نے چوہے ہی تو نوش فرمائیں ہیں جو اس کی خوراک بھی ہیں۔ جب چوہا بلی کی خوراک میں شامل ہے تو وہ اس کو اپنا نوالہ کیوں نہ بنائے؟؟ ؟ لہٰذا اس نے کیا گناہ کیا؟؟ اگر اپنی خوراک کھانا گناہ ہے تو پھر یہ گناہ عظیمِ انسان سلیم بھی روز انہ کرتا ہے تو پھر یہ کیوں نہیں کہا جاتا کہ ”سو مرغ کھاکے بڈھا چلا حج کو“۔ آخر ایک مسلمان انسان بھی روزانہ مرغ، بکرا، بھینس، اونٹ وغیرہ کے گوشت سے مختلف قسم کے سالن تیار کرتا ہے اور چٹ کرجاتا ہے بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ بغیر کباب و قورمہ، نہاری اور چکن اچاری کے اس کا نوالہ حلق سے نیچے نزول نہیں فرماتا ہے، اور جب وہ اپنی عمر کے آخری پڑاو پر پہنچتا ہے تو حج کو چل دیتا ہے۔(عازمین حج میں جوانی کو پار کرچکے حضرات کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اس لیے کہاوت میں لفظ بڈھا استعمال کیا گیا)۔
یہ بات واضح ہے کہ جسکی جو خوراک ہے وہ اس کو اپنا نوالہ بنائے گا خواہ بلی چوہے کو یا شیر بکری کو، اور بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھائے یا پھرایک مچھر انسان کا خون ہی کیوں نہ چوسے۔ ہر جاندار اپنی پیٹ پوجا کے لیے ان تمام چیزوں کو نوش فرمائے گا جو اس کی غذا میں شامل ہے۔ یہ بات تو صاف ہوئی کہ ہر باحیات اپنی خوراک ہضم کرے گا ۔ ہاں یہ الگ مسئلہ ہے کہ وہ اس کوکس طرح حاصل کرتا ہے ، جائز طریقے سے یا ناجائز طریقے سے۔۔۔۔ اب اگر بلی نے ناجائز طرےقے سے 100 چوہے کھائے ہوں تو وہ قصور وار ہے لیکن اگر قصور وار مان بھی لیا جائے تو کیا اب وہ تو بہ کی حق دار نہیں...؟؟؟ بے چاری بلی

Wednesday, January 21, 2009