Saturday, July 25, 2009

میں موت ہوں

میں موت ہوں۔ مجھ سے کسی کو راہ فرار نہیں۔ ہر ذی روح کو میرے آغوش میں آنا ہے۔ ہر نفس کی میرے دربار میں حاضری ضروری ہے۔ جو مجھ سے بھاگتا ہے اس کو میں دوڑ کر پکڑ لیتی ہوںاور جو مجھ سے قریب ہونا چاہتا ہے، میں اس کو جلدی لفٹ نہیں دیتی۔
مجھے ذی روح کواپنی بانہوں میں بھرنے میں بڑا مزہ آتا ہے۔میں کبھی فرداً فرداً ہر نفس سے گلے ملتی ہوں اور کبھی میرا دامن اتنا وسیع ہو جاتا ہے کہ لاکھوں لوگ بیک وقت ایک ساتھ میری گود میں سما جاتے ہیں۔ میں نہ وقت، نہ جگہ، نہ کوئی لمحہ دیکھتی ہوں میں تو کبھی بھی چپکے سے دبے پاوںچلی ٓتی ہوں کہ میری آہٹ کا ہوا تک کو علم نہیں ہوتا اور کبھی علی الاعلان بنانگ دہل دندناتی ہوی آتی ہوں کہ جہاں سے میرا گذر ہوتا ہے وہاں کے ذی روح تھر تھر کانپنے لگتے ہیں اور ان پر غشی طاری ہوجاتی ہے۔ کبھی کبھی یہ غشی ایسی طاری ہوتی ہے کہ مری لوریاں اسے ہوش میں آنے نہیں دیتیں اور اس کو ابدی نیند میں غرق کردیتی ہیں۔
اس دنےا کے قیام سے اب تک میںایسی واحد ملکہ ہوں جس کی حکومت ابھی تک قائم ہے۔ میری بادشاہت میں کبھی زوال نہیں آیا، میری حکومت کا سورج ابھی تک غروب نہیں ہوا اور میں تاقیامت حکومت کرتی رہوںگی۔ میری حکومت کی داستان بہت قدیم، روشن اور تاب ناک ہے۔ میرے دست مزاحمت سے اب تک کوئی بھی بچ نہیں سکا ہے۔ میرے حملے کبھی بھی ناکام نہیں ہوئے ہےں۔ میں نے ہر جنگ جیتی ہے۔ ناکامی کسے کہتے ہیں مجھے اس کا علم نہیں، اور شکست کا احساس کیسا ہوتا ہے میں نے کبھی محسوس نہیں کےا۔ میں نے شب خوں مارا تو بھی کامیاب ہوئی۔ میری راہ میں جو جو بھی روڑے اٹکاتے ہیں میں ان کو بھی نہیں بخشتی۔
میں کسی بھی صورت میں آسکتی ہوں۔ میرے اندر ہر روپ اختیار کرنے کی صلاحیت ہے۔ کبھی موذی حیوان کی شکل میںآتی ہوں تو کبھی آگ کی شکل میں، کبھی زلزلہ بن کر حملہ آور ہوتی ہوں تو کبھی سنامی جیسے بھیانک طوفان کی شکل میں۔مرض بن کر آنا تو میرے روز کا معمول ہے۔ کبھی خطرناک مرض تو کبھی خفیف مرض کی صورت میں۔
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ”تمہاری“ باری ہے

No comments:

Post a Comment