Showing posts with label Pubblished. Show all posts
Showing posts with label Pubblished. Show all posts

Saturday, April 20, 2013

اردو محققین کے پیش رو: سر سید احمد خاں


اردو زبان و ادب کے ارتقا، وسعت، تنوع اور تبدیلیوں میں تحریکوں اور رجحانات کا بہت اہم کردار رہا ہے۔انھیں تحریکوں اور رجحانات کے زیر سایہ اردو زبان و ادب کی پرورش و پرداخت ہوئی اور انھیں کے زیر نگرانی اس کے حسن میں نکھار آیا جس نے پوری دنیا کو مسحور کردیا اور لوگ اس کے دامِ سحر میں گرفتار ہونے لگے۔جن دو تحریکوں نے اردو زبان ادب کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ علی گڑھ تحریک اور ترقی پسند تحریک ہے۔ علی گڑھ تحریک ہی نے اردو نثر کو مسجع و مقفی کی بیڑیوں سے آزاد کرایا اور اس میں سب سے اہم رول بانیِ علی گڑھ تحریک سر سید احمد خاں کا ہے۔غالب کی مسجع ومقفی سے پاک آسان اور سادہ مکتوب نگاری کے بعد سر سید احمد خاں نے اسی سادہ سلیس ، عام فہم اور آسان زبان میں مضمون نگاری کے ذریعے اردو نثر کو ایک نئی زندگی عطا کی ۔

سر سید احمد خاں کی شخصیت اور ان کی خدمات پر طائرانہ نظرڈالی جائے تو ان کے کئی روپ سامنے آتے ہیں ۔ وہ ایک مصلح قوم و ملت، عظیم مفکراور دانشور تھے۔ علی گڑھ تحریک کے زیر سایہ انھوں نے قوم و ملت کی خدمت کی اور اس کے ساتھ انھوں نے اردو زبان خصوصاً اردو نثر کو عوام کے طبقے تک پہنچانے میں اہم رول ادا کیا۔سرسید ایک اچھے معلم بھی تھے اور تعلیم و تربیت پران کی خصوصی توجہ تھی۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ تعلیم ہی کے ذریعے انسان کامیابی کے راستے کوپار کر منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے ۔ اسی لیے انھوں نے مسلمانوں کی تعلیم و تربیت پر بہت زور دیا اور اسی کے نتیجے میں محمڈن اینگلو اورینٹیل کالج کا قیام عمل میں آیا جو آگے چل کر ایک مرکزی یونی ورسٹی میں تبدیل ہوگیا۔ وہ صحافی اور مصنف بھی ہیں۔ تاریخی، مذہبی، علمی اور تہذیبی موضوعات پر کئی کتابوں کی تصنیف اور بے شمار مضامین کے ساتھ ساتھ اردو کے مایہ ناز رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کی ادارت کی اور اس کے خد و خال کو سنوارا۔ اسی رسالے کے ذریعے انھوں نے عوام خصوصاً مسلم عوام سے رابطہ پیدا کرکے انھیں ذلت کے غار سے نکالنے کی ہر ممکن کوشش کی ۔
سر سید کی ایک اور حیثیت ہے ۔ وہ اردو محققین کے پیش رو ہیں۔ اردو میں تحقیق کی روایت کا آغاز انھیں سے ہوتا ہے ۔ گرچہ اس سے قبل بھی اردو نثر میں تحقیق کے عناصر پائے جاتے تھے مگر سر سید نے تحقیق کے سائنٹفک اصولوں کے تحت اردو تحقیق کی نئی روایت قائم کرتے ہوئے اپنے جانشین محققین کے لیے تحقیق کی بنیادیں فراہم کیں جس پر اردو کے محققین نے بلند و قامت عمارت تعمیر کی ہے۔
سرسید کو محقق بنانے اور اپنے جانشین محققین کے لیے نقوش چھوڑنے میں سب اہم رول ان کی مایہ ناز تصنیف ’’آثار الصنادید‘‘ نے ادا کیا ہے۔یو ں تو یہ ایک تاریخی کتاب ہے جو چار ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے تین ابواب میں دہلی کی تاریخی عمارتوں اور قدیم کھنڈرات کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔ پہلے باب میں فصیل بند شہر دہلی کے باہر کی عمارتوں کا ذکر ہے۔ دوسرے باب میں قلعہ معلی کی عمارتوں کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔ تیسرے باب میں شہر شاہجہان آباد جو فصیل بند شہر تھا، اس میں موجود تاریخی عمارتوں کی معلومات درج کی گئی ہیں۔ چوتھے اور آخری باب میں دہلی کے علما، صوفیا، ادبا و شعرا، اطبا، موسیقاروں اور دیگر فن کاروں کا مختصر اور جامع تذکرہ موجود ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی اپنی کتاب ’’حیات جاوید‘‘ میں اس کتاب کے ابواب بارے میں لکھتے ہیں کہ’’پہلے باب میں تقریباً ۱۳۰ عمارتوں کا بیان ہے جن میں ہندو اور مسلمان دونوں کی عمارتیں شامل ہیں اور چند کے سوا باقی ہر عمارت کا کتبہ اور نقشہ اس کے ساتھ دیا گیا ہے۔ دوسرے باب میں ۳۲عمارتوں کا بیان اوراس کے نقشے اور کتبے مندرج ہیں۔ تیسرے باب میں تقریباً ۷۰ حویلیوں، مسجدوں، مندروں، بازاروں، باولیوں اور کنووں وغیرہ کا بیان ہے ۔ چوتھے باب میں اول کسی قدر اُن شہروں، قلعوں، اور محلوں وغیرہ کا بیان ہے جو ۴۰۴ ؁بکرمی سے لے کر آخر تک وقتاً فوقتاً اس سرزمین میں آباد ہوئے۔ اس کے بعد یہاں کی آب و ہوا اور زبان اردو کا ذکر ہے۔ پھر مشاہیر اہل دہلی کا حال لکھا ہے جس میں ایک سو بیس مشائخ، علما، فقرا، مجاذیب، اطبا، قرًا، شعرا، خوش نویس، مصور، موسیقی داں وغیرہ کا بیان ہے۔‘‘
سر سید احمد خاں پہلے مصنف ہیں جنھوں نے اردو میں آثار قدیمہ کے موضوع پر علمی اور محققانہ انداز پر معرکۃ الآراء کتاب ’’آثار الصنادید‘‘ لکھی۔ اس کتاب کے بارے میں سیداحتشام حسین نے اپنی کتاب ’’اردو ادب کی تنقیدی تاریخ‘‘میں لکھا ہے کہ ’’...ان میں سب سے زیادہ اہمیت ’’آثار الصنادید ‘‘ کو حاصل ہوئی کیونکہ یہ ہندوستانی زبانوں میں پہلی تحقیقی کتاب تھی جس میں دہلی کی تاریخی عمارتوں کی تفصیل دی گئی تھی۔ اسی کے ساتھ اہل دہلی کاایک تذکرہ بھی تھا۔ اس کے لکھنے میں انھوں نے کچھ مدد امام بخش صہبائی سے بھی لی تھی۔ اس کے ترجمے یورپ کی زبانوں میں بھی ہوئے اور سر سید کی شہرت اور عزت میں اضافہ ہوا۔‘‘ اس کتاب کی شہرت او راہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اسی زمانے میں اس کے دو ایڈیشن شائع ہوئے۔ پہلا ایڈیشن سر سید کے اپنے مطبع سیدالاخبار سے ۱۸۴۷ء میں شائع ہوا۔ ا س کے سات سال بعد سرسید نے اس کتاب پرنظر ثانی کرکے کچھ ترمیم اور حذف و اضافہ کے ساتھ دو بارہ ۱۸۵۴ ء شائع کیا۔ پہلے ایڈیشن میں جو خامیاں راہ پا گئی تھیں ، اس کی وضاحت دوسرے ایڈیشن میں کی گئی تھی۔ مگر دوسرے ایڈیشن میں چوتھے باب کو خارج کردیا گیا تھاجس میں اہل علم حضرات کا مختصرمگر جامع تذکرہ موجود تھا۔ اس کتاب کی تیاری میں سرسید کو بہت محنت اور مشقت کرنی پڑی ۔ تمام عمارتوں کا معائنہ کرنا، پھر اس کے کتبوں اور نقشوں کو پڑھنا اور اس میں سے نوٹ تیار کرنا بہت مشکل امر تھا، بعض بلند و بالا عمارتوں کے کتبے بہت اونچے ہوتے جن کو پڑھنے کے لیے سرسید کو چھینکا اور بلًیوں کا استعمال کرناپڑا، مگر اس مشقت کے باجود سرسید کی ہمت اور ان کا عزم نہیں ہارا ۔ سر سیدکی اس محنت اور لگن کا نقشہ مولانا حالی نے ’’حیات جاوید‘‘ میں یوں کھینچا ہے کہ ’’باہر کی عمارتوں کی تحقیقات کرنا ایک نہایت مشکل کام تھا۔ بیسیوں عمارتیں ٹوٹ پھوٹ کر کھنڈر ہو گئی تھیں۔ اکثر عمارتوں کے کتبے پڑھے نہ جاتے تھے۔ بہت سے کتبوں سے ضروری حالات معلوم نہ ہوسکتے تھے۔ اکثر کتبے ایسے خطوں میں تھے جن سے کوئی واقف نہ تھا۔ بعض قدیم عمارتوں کے ضروری حصے معدوم ہوچکے تھے۔ اور جو متفرق اور پراگندہ اجزا باقی رہ گئے تھے ان سے کچھ پتا نہ چلتا تھاکہ یہ عمارت کیوں بنائی گئی تھی اور اس سے کیا مقصود تھا....پھر اکثر عمارتوں عرض و طول و ارتفاع کی پیمائش کرنی، ہر ایک کی عمارت صورت حال قلمبندکرنی، کتبوں کے چربے اتارنے اور ہر ایک کتبے کو بعینہ اس کے اصلی خط میں دکھانا، ہر ٹوٹی پھوٹی عمارت کا نقشہ جوں کا توں مصور سے کھنچوانا اور اس طرح کچھ اوپر سوا سو عمارتوں کی تحقیقات سے عہدہ بر آ ہونا فی الحقیقت نہایت دشوار کام تھا۔سیر سید کہتے تھے کہ ’’قطب صاحب کی لاٹ کے بعض کتبے جو زیادہ بلند ہونے کے سبب پڑھے نہ جاسکتے تھے ان کے پڑھنے کو ایک چھینکا دو بلًیوں کے بیچ میں ہر ایک کتبے کے محاذی بندھوا لیا جاتا تھا اور میں خود اوپر چڑھ کر اور چھینکے میں بیٹھ کر ہر کتبے کا چربہ اتارتاتھا جس وقت میں چھینکے میں بیٹھتاتو مولانا صہبائی فرط محبت کے سبب بہت گھبراتے تھے اور خوف کے مارے ان کا رنگ متغیر ہوجاتا تھا۔‘‘ سر سید کی آئندہ ترقیات کی گویا یہ پہلی سیڑھی تھی۔‘‘
اس تحقیقی کتاب کے سبب سرسید کو اردو کا پہلا محقق کہا جا سکتا ہے کیونکہ اول تو اس میں دہلی کی عمارتوں کا محققانہ ذکر تھا ۔ دوسرے یہ کہ اس کتاب کے پہلے ایڈیشن میں چوتھے باب میں جن اہل علم حضرات کے احوال درج کیے گئے وہ تحقیق کے اصولوں پر تیار کیے گئے تھے جو آئندہ کے محققین کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئے۔ یہ کتاب اس زمانے میں اردو زبان کی بدلتی شبیہ کی مثال بھی ہے ۔ کیونکہ اس کے پہلے اور دوسرے ایڈیشن کی زبان میں بہت فرق ہے، جو اردو نثر کے ارتقا کا بین ثبوت ہے۔بقول سید عبداللہ ’’ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۸۴۷ء میں اردو نثر پر سہ نثر ظہور اور انشائے ابولفضل کا گہرا سایہ پڑا ہوا ہے ۔ لیکن سات سال بعد یعنی ۱۸۵۴ء میں ہم اسے انگریزی نثر اور انگریزی انشاپردازی کے اثرات سے متاثر پاتے ہیں۔ اب بے ضرورت تکلف، رنگینی اور فارسیت کی بجائے نثر میں سادگی، سلاست اور بے ساختہ پن صاف دکھائی دیتا ہے۔ غرض آثار کی دونوں اشاعتوں کے د رمیان نثر کے اسلوب میں یکا یک جو تبدیلیاں رونما ہوئیں ان سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے میں گو نا گوں اندرونی اور بیرونی اسباب کی وجہ سے اردو نثر ترقی کے قدم جلد جلد اٹھا رہی ہے۔‘‘
اس کتاب کے علاوہ سرسید نے تاریخ کی تین کتابوں کی تحقیق وتدوین کرکے دو بارہ شائع کیا۔ پہلی کتاب ’’آئین اکبری‘‘ ہے جس میں مغل زیورات کی تصویریں، خیمہ گاہ بادشاہی اور تمام پھل دار اور پھول دار درختوں کی تصویریں شامل تھیں۔ دوسری کتاب ضیا برنی کی ’’تاریخ فیروزشاہی‘‘ کی تدوین ہے جس میں سلاطین ہند کی مستند تاریخ ہے۔ تیسری کتاب ’’تزک جہانگیری‘‘ کی ترتیب و تدوین ہے ۔ ’’آثار الصنادید‘‘ کی تصنیف کے ساتھ ان تین کتابوں کی تحقیق و تدوین نے سرسید کو اردو پہلا محقق بنا دیا۔


Sunday, July 24, 2011

اساتذہ کی اہلیتی جانچ: مسائل و مصائب کا انبار

گزشتہ ۲۶جون ۲۰۱۱ اُن آٹھ لاکھ لوگوں کے لیے یوم الحشر تھا، جو مستقبل میں استاذ بن کر قوم کی خدمت کرنے کی امید و آرزوکے چراغ اپنے دلوں میں ہمہ وقت روشن رکھتے ہیں۔ یو م الحشر اس معنی میں تھا کہ اس دن سرکار کی جانب سے اساتذہ کی مستقل تقرری کے واسطے ان کی قابلیت اور صلاحیت کو پرکھنے کے لیے ایک ٹیسٹ رکھا گیا تھا اور ملک بھر میں مختلف مراکز پر امیدواروں کا ہجوم نفسی نفسی کے عالم میں تھا۔ بات در اصل یہ ہے کہ جس طرح کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تقرری کے لیے نیٹ کا معیار رکھا گیا ہے ، اسی طرح اسکول کی سطح پر اساتذہ کی تقرری کے لیے مرکزی سطح پر یا ریاستی سطح پر اساتذہ کی اہلیت کی جانچ کا معیار اس سال سے طے کیا گیاہے، اور اسی معیار پر کھرا اترنے کے لیے آٹھ لاکھ طلبا و طالبات اور عارضی طور پر بر سر روزگار اساتذہ پورے ملک میں مختلف مراکز پر جمع ہوئے۔
گزشتہ ۲۶ جون کو سی بی ایس ای کی جانب سے پورے ملک میں ۸۶ شہروں؍قصبوں کے ۱۱۷۸ مراکزپر سی ٹی ای ٹی کا انعقادکیا گیا تھا۔ ان ۱۱۷۸ مراکز پر طلبا کا ہجوم اور ان کو لاحق پریشانیاں قابل افسوس تھیں۔ اس کی ایک جھلک قومی راجدھانی دہلی میں بھی دیکھنے کو ملی۔ چونکہ اس ہجوم میں ، میں بھی شامل تھا، لہٰذا اس ہجوم کو لاحق پریشانیوں اور تجربوں سے میں بھی پریشان اور مستفید ہوا۔اس دن کے امتحان میں شرکت کرنے والوں کو کئی قسم کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سب سے پہلی مشکل جس کی شکایت سبھی نے کی وہ وقت کی قلت تھی۔ یعنی امتحان کا مقررہ وقت دیڑھ گھنٹہ تھا اور سوالات ایک سو پچاس۔ گو یا کہ ۹۰ منٹ میں ۱۵۰ سوال حل کرنے تھے، جو کسی بھی صورت میں ممکن نہیں تھا۔ چونکہ سوالات معروضی تھے ، لہٰذا آخری ۵منٹ میں تمام امید وار تقریبا ۳۰ سے ۵۰ سوالات بغیر پڑھے اور سجھے جوابی کاپی میں دیے گئے گولے کو قسمت کے سہارے پُر کرنے پر مجبور تھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ امتحان گاہ سے نکلنے کے بعد امیدواروں نے تقریباً ایک زبان ہو کر کہا کہ اگلے سال گولہ بھرنے کی مشق کرکے آئیں گے۔ ان کے اس جملے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انھیں پوری امید ہے کہ اس سال وہ کامیاب نہیں ہو سکتے اور اگلے سال بھی وقت کی کمی کے باعث اسی طرح کی پریشانیاں سامنے آ سکتی ہیں لہٰذا کم وقت میں زیادہ گولہ بھرنے کی مشق کی جائے تاکہ کوئی جواب چھوٹنے نہ پائے چہ جائے کہ وہ سوالات کو سمجھیں یا نہ سمجھیں۔
اس دن کی ایک بڑی پریشانی یہ بھی تھی کہ امتحان کے مراکز پر تعنیات نگراں کو بھی اس امتحان کے قواعد و ضوابط سے متعلق پوری جانکاری نہیں تھی۔ایسا لگتا ہے کہ انھیں کسی بھی قسم کی ہدایات نہیں دی گئیں اور اگر انھیں ہدایات سے نوازا بھی گیا توانھوں نا اہلوں نے سنی ان سنی کردی، جس کی وجہ سے ان کے ساتھ ساتھ امیدواروں کو بھی کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس امتحان میں امیدواروں کو دو زبانوں کا بھی ٹیسٹ دینا تھا، اور ان زبانوں کا انتخاب آئین کے آٹھویں شیڈول میں موجود زبانوں میں سے کرنا تھا۔ انگریزی اور ہندی کے سوالنامے تو دیگر مضامین کے ساتھ یکجا تھے، مگر ان دونوں کے علاوہ جو زبانیں تھیں ان کے سوال نامے الگ الگ بنائے گئے تھے۔ اور یہ سوالنامے ان امیدواروں کو مہیا کرایا جانا تھا جنھوں نے انگریزی یا ہندی کے علاوہ دیگر زبانوں کا انتخاب کیا تھا۔ لیکن یہ سوالنامے ان طلبا کو تاخیر سے دئے گئے اور بعض مراکز پر ان امیدواروں کو انگریزی اور ہندی کے علاوہ دیگر زبانوں کے سوالنامے تو دئے ہی نہیں گئے۔ان بے چاروں نے بغیر سوالناموں کے اپنے جوابات قسمت کے سہارے اپنی جوابی کاپی میں بھردئے۔ اس سلسلے میں کئی مراکز پر ایک اور گڑبڑی ہوئی جو امتحان منعقد کرانے والے مراکز کی نا اہلی کو ثابت کرتی ہے ۔ ہوا یوں کہ بیشتر مراکز پر انگریزی اور ہندی کے علاوہ دیگر زبانوں کے سوالناموں کی کاپیاں ان کے اصل سوالناموں کی کاپی کے نمبر سیریز کے مطابق نہیں دی گئیں۔ مثلا اگر اصل سوالنامے کی کاپی کا سیریز نمبر اے ہے تو ان کو ضمیمہ سوالنامے کی کاپی بی؍سی؍ڈی سیریز کی دی گئی۔ اور چونکہ وقت کی کمی کے باعث امیدواروں نے اس بات کو نوٹس نہیں کیا اور وہ اپنے سوالات حل کرنے میں مصروف رہے۔لہٰذا امتحان گاہ سے نکلنے کے بعد انھیں معلوم ہوا کہ ایسی بھی گڑبڑ ہوئی۔ اب ایسی صورت میں تو امیدواروں کے صحیح جواب بھی غلط ہو جائیں گے، اور امتحانی مراکز کے نا اہل لوگوں کی غلطیوں کا خمیازہ امیدواروں کو بھگتنا پڑے گا۔
قابل غور بات یہ بھی ہے یہ امتحان صرف ان اسکولوں میں تقرری کے لیے منعقد کرایا گیا تھا جو مرکزی سطح پر پورے ملک میں ایک ادارے کی جانب سے چلائے جاتے ہیں مثلا کیندریہ ودیالیہ وغیرہ۔ ریاستی سطح پر چل رہے اسکولوں میں تقرری کے لیے اگرریاستی انتظامیہ سی ٹی ای ٹی کے معیار کو مان لیتی ہے تو ٹھیک ورنہ ان کو اختیار ہے کہ وہ ریاستی سطح کے اہلیتی امتحانات منقعد کرائے۔ اب ایسی صورت میں سی ٹی ای ٹی میں کامیاب امیدوار ایسی امید نہیں لگا سکتے کہ وہ ریاستی سطح کے سرکاری اسکولوں میں تقرری کے اہل ہیں بلکہ ان کو یاستی سطح کے اہلیتی امتحانات کے معیار پر بھی کھرا اترنا پڑ سکتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اکثر و بیشتر امیدواروں کا کہنا ہے کہ ایسے امتحان کیوں منعقد کرائے جار ہے ہیں جبکہ اساتذہ کی تقرری کے لیے امیدوار پہلے سے ہی ٹیچر ٹریننگ کورس کرکے اس کے اہل ثابت ہو چکے ہیں تو دوبارہ ان کے معیار کو کیوں پرکھا جارہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے تو ان کی ٹیچر ٹریننگ کورسز کی ڈگریاں بے معنی سی ہو کر رہ جائیں گی۔ یہ بھی خیال رہے کہ اس امتحان میں کامیاب ہونے والا امیدوار اس بات کا مجاز نہیں ہوگا کہ اس کو سرکاری سطح پر اسکول کا استاذ مقرر کیا جائے بلکہ اس کو اسکول کی جانب سے تقرری کے لیے منعقد امتحان سے بھی گزرنا ہوگا۔ گو یا کہ اب ایک استاذ بن کر قوم کی خدمت کرنے کے لیے سب سے پہلے اسے ٹیچر ٹریننگ کی ڈگری حاصل کرنی ہوگی، اس کے بعدبھی اس طرح کے امتحان میں کامیاب ہونا پڑے گا۔ اور ا سکے بعد پھر ایک مرتبہ اساتذہ کی آسامی کو پُر کرنے کے لیے منعقد امتحان میں پاس ہوکر میرٹ میں سب سے اوپر اپنی جگہ بنانی ہوگی۔
میں اپنی اس تحری کے ذریعہ ان آٹھ لاکھ لوگوں اور مستقبل میں مزید پیدا ہوانے والے امیدواروں کی ترجمانی کرتے ہوئے حکومت وقت سے ، مرکزی اور ریاستی سطح کے وزرائے تعلیمات سے، تعلیمی محکموں میں اعلی عہدوں پر فائز سربراہان سے، اکیڈمیوں کے ذمہ داران، غیر سرکاری تنظیموں اور انجمنوں کے عہدے داروں سے دردمندانہ اپیل کرتا ہوں کہ ایسے امتحانات منعقد کرانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے اور اگر ماہر تعلیمات اور ماہر نظم ونسق ایسا سمجھتے ہیں کہ اس کی ضرورت ہے تو مذکورہ بالا پریشانیاں دور کی جائیں۔ اگر ایسا ہی رویہ رہا تو ممکن ہے کہ کسی دن یہ بڑی تعداد میں حکومت وقت کے خلاف سڑکوں پر اتر سکتی ہے۔

Sunday, January 16, 2011

غالب کا اندازِ بیاں اور



ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
اسی اندازبیاں اور میں غالب نے اپنے بارے میں نواب علاء الدین احمد خاں بہادرعلائی کو ایک اردو خط میں جو لکھا ہے وہ حسن بیاں کا بہترین نمونہ ہے۔ بقول غالب ’’سنو عالم دو ہیں: ایک عالم ارواح اور ایک عالم آب و گل۔ حاکم ان دونوں عالموں کا وہ ایک ہے جو خود فرماتا ہے:’’ لِمَنِ المُلکُ الیَومَ‘‘؟ اور پھر آپ جواب دیتا ہے: ’’لِللٰہِ الواحِدِ القَہّارِ‘‘ ۔
ہر چند قاعدہ عام یہ ہے کہ عالم آب و گل کے مجرم عالم ارواح میں سزا پاتے ہیں لیکن یوں بھی ہوا ہے کہ عالم ارواح کے گنہگار کو دنیا میں بھیج کر سزا دیتے ہیں۔ چنانچہ میں آٹھویں رجب سنہ ۱۲۱۲ھ (۲۷دسمبر۱۷۹۷ء) میں روبکاری کے واسطے یہاں بھیجا گیا۔ ۱۳ برس حوالات میں رہا۔ ۷رجب سنہ ۱۲۲۵ھ (۹؍اگست ۱۸۱۰ء) کو میرے واسطے حکم دوام حبس صادر ہوا۔ ایک بیڑی میرے پاؤں میں ڈال دی۔ اور دلی شہر کو زنداں مقرر کیا، اور مجھے اس زنداں میں ڈال دیا۔ فکر نظم و نثر کو مشقت ٹھہرایا۔ برسوں کے بعد، میں جیل خانے سے بھاگا۔ تین برس بلاد شرقیہ میں پھرتا رہا۔ پایان کار مجھے کلکتے سے پکڑ لائے اور پھر اسی محبس میں بٹھا دیا۔ جب دیکھا کہ یہ قیدی گریز پا ہے، دو ہتکڑیاں اور بڑھادیں۔ پاؤں بیڑی سے فگار، ہاتھ ہتکڑیوں سے زخمدار۔ مشقت مقرری اور مشکل ہوگئی۔ طاقت یک قلم زائل ہوگئی۔
بے حیا ہوں۔ سال گزشتہ بیڑی کو زاویہ زنداں میں چھوڑ، مع دونوں ہتکڑیوں کے بھاگا۔ میرٹھ، مراد آباد ہوتا ہوارام پور پہنچا۔ کچھ دن کم دو مہینے وہاں رہاتھا کہ پھر پکڑا آیا۔ اب عہد کیا کہ پھر نہ بھاگوں گا، بھاگوں کیا؟بھاگنے کی طاقت بھی تو نہ رہی۔‘‘
غالب کی عظمت کا راز اس کی تحریروں میں پنہاں ہے۔ خواہ وہ منظوم ہوں یا منثور۔ اردو ادب کی یہ شخصیت دنیا جہان کے تمام ادب میں معروف و مشہور ہے۔ بقول غالب ’’شہرت شعرم بگیتی بعد من خواہدشدن‘‘ کے مصداق ان کی پذیرائی ان کی وفات کے بعد ہوئی۔ ان کاکلام خصوصاً اردو کلام عبد الرحمن بجنوری کی زبان میں ہندوستان کا الہامی کلام ہے اور دیوان غالب ہندوستان کی الہامی کتاب وید مقدس کے متوازی ہے۔
اردو ادب کے شعرا میں غالب کا وہ مقام ہے کہ ان کا مقابلہ آسانی سے دنیا کے عظیم ترین شعرا سے کیا جاسکتا ہے۔ بقول زاہدہ زیدی ’’اگر ہم انھیں شہرہ آفاق شعرا مثلاً سونوکلیز، شیکسپےئر، دانتے، گوئٹے، رومی، حافظ، ملٹن، ورڈزورتھ، کالی داس، ٹیگور، اقبال، ایلیٹ اور بوجنبومونتالے وغیرہ کے پہلو بہ پہلو رکھ کر دیکھیں تو کسی قسم کی ندامت محسوس نہیں کریں گے بلکہ بیشتر صورتوں میں غالب ہی کی عظمت کا پلڑا بھاری پائیں گے...غالب اور شیکسپےئر میں کئی اعتبار سے گہری مماثلت محسوس کی جاسکتی ہے۔ دونوں نے زندگی کو اس کی ہمہ گیری،رنگا رنگی، بوقلمونی، لطف و نشاط، محشر انگیزی، المناکی اور بے ثباتی کے ساتھ قبول کیا ہے اور اسے سفید و سیاہ کے پیمانے سے نہیں ناپا، بلکہ اس کے ہلکے، گہرے ، لطیف خوشنما، دلنواز، یاس انگیز اور دردناک سبھی رنگوں کو اپنے فن میں سمولیاہے۔ دونوں کے فن میں انسانی جذبات کا ایک شورانگیز سمندر موجزن ہے اور دونوں کی نفسیاتی بصیرتیں حیرت انگیز ہیں اور دونوں نے رنج وغم اور المناک تجربات سے نایاب بصیرتوں اورہمہ گیر وژن کی کشیدگی اور سب سے بڑھ کر یہ دونوں عظیم فنکار الفاظ کا جادو جگانے میں اور سبھی شعرا پر فوقیت رکھتے ہیں۔‘‘
غالب کا فن ایک
Miniature Painter
کے فن سے مشابہت رکھتا ہے جو ایک بہت چھوٹے سے کینوس پر ایک نازک برش کی حساس جنبش سے اور لطیف اور خوش نما رنگوں سے دلنواز نقش تخلیق کرتا رہتا ہے۔ غالب غزل کے بادشاہ ہیں اور غزل کے سیاق وسباق میں غالب کے اشعار کا کینوس محدودہوتے ہوئے بھی وسیع اور اس کی دلکشی غیر معمولی اور معنی آفرینی لا محدود ہے۔ ان کے بیشتر اشعار شدید احساسات، نادر مشاہدات اور نایاب بصیرتوں کا بیش بہا خزینہ ہیں۔
گنجینہ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کی غالب مرے اشعار میں آوے
غالب جدید ذہن کے خالق ہیں۔ بقول علی سردار جعفری ’’غالب کی عظمت صرف اس میں نہیں کہ انھوں نے اپنے عہد کے اضطراب کو سمیٹ لیا، بلکہ اس میں کہ انھوں نے ایک نیا اضطراب پیدا کیا۔ ان کی شاعری اپنے عہد کے شکنجوں کو توڑتی ہوئی ماضی اور مستقبل کی وسعتوں میں پھیل جاتی ہے۔‘‘ غالب نے غزل کے روایتی فورم کو غیر معمولی وسعت دے کر اسے زندگی کے گوناگوں تجربات احساسات، خیالات، مسائل اور گہری بصیرتوں کے اظہار کا وسیلہ بنایا۔ ان کی غزلیں تراشیدہ ہیروں کی طرح انسانی زندگی کے بے شمار رنگوں کو بیک وقت منعکس کرتی ہیں۔ بقول محمد حسن ’’غالب کے کلام میں درد و الم کے حاشیے اور آرزومندی کے بیل بوٹے دونوں ایک دوسرے سے دست و گریباں ہے بلکہ یوں کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا کہ انہی دونوں کی کش مکش سے غالب کا فن عبارت ہے۔‘‘
اس شمع کی طرح سے جس کو کوئی بجھادے
میں بھی جلے ہوؤں میں ہوں داغ ناتمامی
زندگی اپنی جو اس رنگ سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
اردو ادب میں انہی پہلو دار شاعری کی وجہ سے غالب ممتاز شاعر ہیں اور ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں۔ غالب پر اردو ادب کو فخر ہے اور اردو ادب ہندوستان کے تہذیبی نقش و نگار کا ایک نقش لازوال ہے۔ بقول سید احتشام حسین :’’غالب نے نظم و نثر میں جو کچھ لکھا ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غالب کی معلومات محض کتابی نہیں تھی بلکہ اپنی ذہانت اور ذاتی تجربہ کی وجہ سے وہ قدیم تصورات سے آگے جاناچاہتے تھے۔ نئی باتوں کو سمجھنا اور نئی انجمنوں سے دلچسپی لینا چاہتے تھے۔‘‘
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں
غالب کی عظمت کی بقا ان کی غزلیہ خصوصیات میں مضمر ہے۔ رمز وکنایات اور اختصار انھیں خصوصیات میں سے ایک ہے۔
قفس میں مجھ سے روداد چمن کہتے نہ ڈر ہمدم
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو
غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
حسن کے شیدائی غالب نے خلوص و سادگی کے ساتھ حسن کو تصوف سے قریب کرکے اپنے اشعار میں پیش کیا ہے۔
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ و عشوۂ و ادا کیا ہے
شکن زلف عنبریں کیوں ہے
نگہ چشم سرمہ سا کیا ہے
غالب کا عشق حقیقی اور مجازی دونوں تھا۔ صوفیانہ اور عارفانہ کلام غالب کی کائنات شعری میں قدم قدم پر موجود ہے۔
دل پر قطرہ ہے ساز انا البحر
ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا ہے
قطرہ میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل
کھیل لڑکوں کا ہوا دیدۂ بینا نہ ہوا
دہر جزو جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں
غالب کے تخیل کی پرواز فرش تا عرش کے تمام مظاہر کا احاطہ کرتی ہوئی عرش سے ماوراء کی تمناکرتی ہے۔
منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے
عرش سے اِدھر ہوتا کاشکے مکاں اپنا
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
غالب کی دنیائے عشق و عاشقی میں رنگینی و رعنائی کی بہار اور سرور و مستی کا لطف بھی ہے۔ طالب کاشمیری ’’جوہر آئینہ ‘‘ میں رقم طراز ہیں: ’’حسن و عشق کے جذبات واحساسات اور واردات وکیفیات کی ترجمانی کے سلسلے میں انسانی نفسیات کے رنگ میں رنگی ہوئی جیسی تصویریں غالب نے کھینچی ہیں، ان کی مثال ملنی مشکل ہے۔ معشوق کا ناز و انداز، عشوہ و ادا، شرم و حیا چھیڑچھاڑ، رازونیاز، دردِ ہجر، کیفیتِ وصل، خواہشِ بوس وکنار، لذتِ دشنام، عاشق کی سادگی،تمنا، جوشِ جنوں، ذوقِ صحرانورودی، بے اثریِ آہ، و نارسائی نالہ وغیرہ سب کچھ ان کے یہاں موجود ہے۔ غرض فطرت انسانی کے اکثر تقاضے جو جذبۂ عشق سے متعلق ہیں اور معاملہ بندی کے محرک ہوتے ہیں وہ اپنی فن کاری سے اس طرح اُجاگر کرتے ہیں کہ یہ عمل اوروں کی دسترس سے باہر ہے۔‘‘
نیند اس کی ہے، دماغ اس کا ہے، راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں
اسد بندِ قبائے یار ہے فردوس کا غنچہ
اگر وا ہو تو دکھلادوں کہ اک عالم گلستاں ہے
اسد اٹھنا قیامت قامتوں کا وقتِ آرائش
لباس نظم میں بالیدنِ مضمون عالی ہے
آل احمد سرور کے الفاظ میں ’’غالب کی شاعری ایک بالغ ذہن کی شاعری ہے جو تخیل کی مدد سے زندگی کے ان گوشوں کو دیکھ لیتا ہے جو عام نظروں سے پوشیدہ تھے۔ یہی تخلیقی تخیل انھیں ہر سطحی رومانیت اور سستے نشے کی تہی مایگی سے آشنا کردیتا ہے۔‘‘ آخر میں ظ۔انصاری کا ایک اقتباس جس میں غالب کی آفاقی شہرت کا راز پوشیدہ ہے۔ بقول ظ۔انصاری: ’’اردو کے کسی شاعر کے یہاں اتنی غزلیں یکجا نہیں ملتیں جو اول سے آخر تک منتخب اشعار کا مجموعہ ہوں یا جن میں اول درجے کے اشعار ایک ہی غزل میں اس طرح چنے ہوئے ہوں کہ خیال ایک ہی کیفیت کے مختلف پہلؤوں کا مرحلوں میں لطف لے سکے۔ ان میں باطنی رشتے کے علاوہ آوازوں اور لفظوں کا بھی حسن ہموار نظر آتا ہے۔‘‘
...................

سلمان فیصل
ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ
پتہ
370/6-A
ذاکر نگر، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔۲۵
sfaisal11@gmail.com

Friday, July 17, 2009

کمپیوٹرکے پرتشدد کھیل اور معصوم بچپن

کمپیوٹر گیم کو دو زمروں میں رکھا جا سکتا ہے۔ پہلا زمرہ جس میں وہ شامل ہیں جو قابلیت اور صلاحیت کی نشوونما ، زندگی کے تجربات کی سمجھ اور اخلاقی اقدار کو دلچسپ اور پر لطف طریقے سی پیدا کرنے میں معاون ہوں۔ دوسرے زمرے میں وہ کھیل شامل ہوںگے جو بچوں کی تخییلی و فکری صلاحیتوں کوپروان چڑھانے میں ذرا بھی مددگار نہ ہوں بلکہ ان کو پرتشدد اور غیر اخلاقی برتاو¿ اور غیر مہذب طور طریقی کے لیے برانگیختہ کریں۔کھیل کا مثبت اثر یہ ہے کہ اس سے بچوں کی ذہنی،جسمانی اور روحانی نشوونما ہو اور یہ نشوونما اس گیم کے مواد اور اس کی durationپر منحصر ہے۔ اس طرح کے کھیل کی مدت نہ تو بہت مختصر ہو اور نہ بہت طویل۔ اس معاملے میں توازن برقرار رکھنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں بچوں کو وقت کا صحیح اور مناسب استعمال کرنے والی تعلیم سے آراستہ کرنا ہوگا۔ غیر ضروری سرگرمیوں میں اپنا وقت برباد کرنے والے بچے بڑے ہوکر اپنے وقت کے مو¿ثر اور کارگر استعمال کے تئیں بے حس ہو جاتے ہیں۔مختصراً یہ کہ بچوں کو وقت کی اہمیت کا شعور اور احساس ہونا چاہئے۔ کمپیوٹر کے سامنے وقت کی بربادی بچوں اور نوجوانوں کو سست اور غیر متحرک بنادیتی ہے اور اس سی بچوں میں ذہنی تناو¿ بھی پیدا ہوتا ہے۔ خاص طور سے چاک و چوبند بچوں میں یہ سستی توانائی(energy) کے اجتماع کا سبب بنتی ہے جس سے بچوں کے برتاو¿ پر منفی اثر پڑتا ہے۔مختلف طرح کے کھیلوں میں بے شمار توانائی کا استعمال بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما کے لیے بہت مفید ہے نیز اس سے بچوں میں سماجی شور بھی پیدا ہوتا ہے۔ جبکہ کمپیوٹر کے سامنے وقت گذاری بچوں اور نوجوانوں کوکلچرل سرگرمیوں سے محروم کردیتی ہے۔
اکثر والدین کی شکایت رہتی ہے کہ ان کے بچے صحیح طریقے سے اپنے مافی الضمیرادا نہیں کرپاتے ہیں۔ جب وہ اپنے بچوں سے کوئی سوال کرتے ہیںتو وہ بالکل مختصر یا رٹے رٹائے جملوں میں جواب دیتے ہیں۔ یہ رویہ کمپوٹرکے سامنے بے مقصد وقت گذاری کا ہی نتیجہ ہے۔ بات چل رہی تھی کمپیوٹرگیم کی...... آج کل کے پروڈیوسرز ہر وہ طریقے اپناتے ہیں جوبچوں کو اسکرین کی جانب کھینچ کی جانب لائیں۔ گرچہ وہ مناظر بچوں کی عمر کے شعور کے مناسب نہ ہوں۔ وہ بچے جو پرتشدد مناظر زیادہ دیکھتے ہیںوہ جارحیت اور شدت پسند ہوتے ہیں نیز وہ غضبناک طبیعت کے مالک بھی ہوجاتے ہیں۔ ایسے بچے جو متشددفلمیں زیادہ دیکھتے ہیںاور پرتشدد گیم کھیلتے ہیںوہ ان اعمال کو اپنی زندگی میں بھی دوہرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے بچے مارپیٹ، لڑائی جھگڑا بہت زیادہ کرتے ہیں۔ تخریبی اور متشدد مناظر بچوں میں نیند میں خلل اور غیر فطری برتاو¿ جیسی پریشانیاں بھی پیدا کرتے ہیں۔
کمپیوٹر کی نقصاندہ گیم بچوں کو اپنی تہزیب و تمدن سے بھی عاری کرتے ہیں۔ اس طرح کے گیم بچوں کو ایک ایسی دنیا کی سیر کراتے ہیں جہاں بی ہنگم لباس، چجیب و غریب hairstyls اور لوازمات میں ہتھیار شامل ہوتے ہیں۔ اس طرح کی دنیا میں اخلاق و اقدار کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ والا معاملہ رہتا ہے۔کمپیوٹر پر گتم کھیل کر اپنا وقت برباد کرنے والے بچے زیادہ تر اپنے ماحول سے بے گانے ہوجاتے ہیں اور ایسے بچوں کے دوست بھی کم ہوتے ہیں لہٰذا وہ کمپیوٹر کے غلام بن جاتے ہیں اور معاشرے ان کا رابطہ منقطع ہو جات ہے۔ کمپیوٹر ہی ان کا دوست ہوتا ہے نتیجةً وقت کی بربادی کے ساتھ ان کے اندر تنہائی کا بہت زیادہ احساس ہوتا ہے۔ اس لیے والدین کوچاہئے کہ وہ اپنے بچوں کومناسب سرگرمیوں میں ملوث رکھیں اور معقول حد تک کمپیوٹر گیم کے لیے وقت صرف کرنے دیں۔
کمپیوٹر کے بہت سارے برے کردار بچوں کی شخصیت کی نشوونما پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔ یہ بات یقینی ہے کہ اس طرح کے گیم سے جو پیغام بچوں تک پہنچتا ہے جیسے مضبوط،طاقت ور اور ناقابل چیلینج بننا،دوسروں کی زندگی کے تئیںبے اعتنائی برتنا، اپنے مفاد کے لیے دوسروں کو ختم کرنا، اخلاقی اقدار سے متنفر ہونا، دوسروں کے احساسات کو حقیر سمجھنا، معمر اور قد آور شخصیات کی بے ادبی، ان سب باتوں سے بچوں کی شخصی نشوونما پر منفی اثر پڑتا ہے۔ اس طرح کے گیم سے بچوں کی آموزشی صلاحیتوں پر ناپسندیدہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کمپیوٹر کے اشکرین پر تیزی سے بدلتے مناظر بچوں کو ذہنی انتشار میں مبلتا کرتے ہیںجو آموزشی عمل کو متاثر کرتے ہیں۔ مزید برآں اسکرین کی تیز روشنی کچھ بچوں کے لیے مرگی کے دورے جیسی بیماری کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔
الغرض یہ کہ کمپیوٹر گیم بچوں کے اندرےہ احساس پیدا کرتا ہے کہ زندگی بھی ایک کھیل ہے۔ کمپیوٹر گیمز بچوں کو گیم کے کرداروں کے بارے میں بہت زیادہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں اور بچے چاہتے ہیں کہ وہ ذہنی اور جسمانی طور پر ہمیشہ ان کرداروں کے ساتھ رہیں۔ بہت زیادہ کمپیوٹر گیم کھیلنے والے بچوں کا نظریہ اصلی زندگی میں بھی وہی ہو جات ہے جو نظریہ گیم کے اندر موجود ہوتا ہے۔ وہ اپنے اقربا اور احباب سے بھی اسی طرح کا برتاو¿ کرتے ہیں۔ وہ اصل اور خیالی زندگی میں تمیزکرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ مزید ان کی شخصیت میں غیر سماجی برتاو¿ کا اضافہ ہوتا ہے۔
ہم یقینی طور پر کمپیوٹر کے مفید پہلو کونظرانداز نہیں کرسکتے جو اس دور میں بہت ضروری ہیں۔ لیکن یہ اس وقت بہتر ہوگا جب اس کی مثبت خدمات کو قبول کیا جائے اور اس کے نقصانات سے محفوظ ہونے کو یقینی بنایاجائے۔بچوں کی جسمانی نمو اور بالیدگی کے لیے کھیلنے کے اوقات کو مناسب طریقے سے فی الواقع اور ہم جماعتی کھیل میں تقسیم کرنا ضروری ہے۔اس کے لیے مندرجہ ذیل کھیل موزوں ہو سکتے ہیں۔٭ایسے کھیل جس میں بچے activeکردار ادا کرسکیں٭ایسے کھیل ماہرین کی طرف سے تجویز کردہ ہوں٭ایسے کھیل جو بچوں کے اندر قومی بیداری اور تہذیبی پہچان پیدا کرے٭ایسے کھیل جو بچوں کی ذہن و فراست اور فہم و ادراک میں اضافہ کرے٭ایسے کھیل جو بچوں میں تبادل خیال، جماعتی روح،دوسروں کا خیال، خلوص اور جاں فشانی جیسی صفات پیدا کرنے میں معاون ہوں٭ایسے کھیل جو تجسس پر ابھاریںاور آموزش کو دلچسپ بنائیں٭ایسے کھیل جن میں بچے والدین کو بھی شامل کرسکیں٭ایسے کھیل جوبچوں کی اندر فرائض اور ذمہ داریوں کو بخوبی نبھانے کا جذبہ پیدا کریں۔٭ایسے کھیل جو بچوں کی تخییلی نشوونما، فکری صلاحیت، تفتیشی و اختراعی لیاقت و قابلیت کوبڑھانے میں معاون و مددگار ہوں

اگر ہم خلاق عالم کی طرف سے عطا کردہ آنکھ، کان اور دیگر اعضاءو جوارح کو کمپیوٹر گیم میں مشغول رکھیں گے تو ان کا فطری اور اصلی مقصد فوت ہو جائے گا۔ اسی لیے والدین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی رہنمائی میں بہت محتاط اور باخبر رہیںاور بچوں کے لیے ایک ایسا ماحول تیار کریں جو انھیں ایک دلچسپ اور وافر آموزشی پس منظر فراہم کرے اور ان کی ذہنی قابلیت کو بام عروج پر پہنچادے۔
Published in UMANG of Rashtriya Sahara Urdu