Sunday, January 16, 2011

غالب کا اندازِ بیاں اور



ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور
اسی اندازبیاں اور میں غالب نے اپنے بارے میں نواب علاء الدین احمد خاں بہادرعلائی کو ایک اردو خط میں جو لکھا ہے وہ حسن بیاں کا بہترین نمونہ ہے۔ بقول غالب ’’سنو عالم دو ہیں: ایک عالم ارواح اور ایک عالم آب و گل۔ حاکم ان دونوں عالموں کا وہ ایک ہے جو خود فرماتا ہے:’’ لِمَنِ المُلکُ الیَومَ‘‘؟ اور پھر آپ جواب دیتا ہے: ’’لِللٰہِ الواحِدِ القَہّارِ‘‘ ۔
ہر چند قاعدہ عام یہ ہے کہ عالم آب و گل کے مجرم عالم ارواح میں سزا پاتے ہیں لیکن یوں بھی ہوا ہے کہ عالم ارواح کے گنہگار کو دنیا میں بھیج کر سزا دیتے ہیں۔ چنانچہ میں آٹھویں رجب سنہ ۱۲۱۲ھ (۲۷دسمبر۱۷۹۷ء) میں روبکاری کے واسطے یہاں بھیجا گیا۔ ۱۳ برس حوالات میں رہا۔ ۷رجب سنہ ۱۲۲۵ھ (۹؍اگست ۱۸۱۰ء) کو میرے واسطے حکم دوام حبس صادر ہوا۔ ایک بیڑی میرے پاؤں میں ڈال دی۔ اور دلی شہر کو زنداں مقرر کیا، اور مجھے اس زنداں میں ڈال دیا۔ فکر نظم و نثر کو مشقت ٹھہرایا۔ برسوں کے بعد، میں جیل خانے سے بھاگا۔ تین برس بلاد شرقیہ میں پھرتا رہا۔ پایان کار مجھے کلکتے سے پکڑ لائے اور پھر اسی محبس میں بٹھا دیا۔ جب دیکھا کہ یہ قیدی گریز پا ہے، دو ہتکڑیاں اور بڑھادیں۔ پاؤں بیڑی سے فگار، ہاتھ ہتکڑیوں سے زخمدار۔ مشقت مقرری اور مشکل ہوگئی۔ طاقت یک قلم زائل ہوگئی۔
بے حیا ہوں۔ سال گزشتہ بیڑی کو زاویہ زنداں میں چھوڑ، مع دونوں ہتکڑیوں کے بھاگا۔ میرٹھ، مراد آباد ہوتا ہوارام پور پہنچا۔ کچھ دن کم دو مہینے وہاں رہاتھا کہ پھر پکڑا آیا۔ اب عہد کیا کہ پھر نہ بھاگوں گا، بھاگوں کیا؟بھاگنے کی طاقت بھی تو نہ رہی۔‘‘
غالب کی عظمت کا راز اس کی تحریروں میں پنہاں ہے۔ خواہ وہ منظوم ہوں یا منثور۔ اردو ادب کی یہ شخصیت دنیا جہان کے تمام ادب میں معروف و مشہور ہے۔ بقول غالب ’’شہرت شعرم بگیتی بعد من خواہدشدن‘‘ کے مصداق ان کی پذیرائی ان کی وفات کے بعد ہوئی۔ ان کاکلام خصوصاً اردو کلام عبد الرحمن بجنوری کی زبان میں ہندوستان کا الہامی کلام ہے اور دیوان غالب ہندوستان کی الہامی کتاب وید مقدس کے متوازی ہے۔
اردو ادب کے شعرا میں غالب کا وہ مقام ہے کہ ان کا مقابلہ آسانی سے دنیا کے عظیم ترین شعرا سے کیا جاسکتا ہے۔ بقول زاہدہ زیدی ’’اگر ہم انھیں شہرہ آفاق شعرا مثلاً سونوکلیز، شیکسپےئر، دانتے، گوئٹے، رومی، حافظ، ملٹن، ورڈزورتھ، کالی داس، ٹیگور، اقبال، ایلیٹ اور بوجنبومونتالے وغیرہ کے پہلو بہ پہلو رکھ کر دیکھیں تو کسی قسم کی ندامت محسوس نہیں کریں گے بلکہ بیشتر صورتوں میں غالب ہی کی عظمت کا پلڑا بھاری پائیں گے...غالب اور شیکسپےئر میں کئی اعتبار سے گہری مماثلت محسوس کی جاسکتی ہے۔ دونوں نے زندگی کو اس کی ہمہ گیری،رنگا رنگی، بوقلمونی، لطف و نشاط، محشر انگیزی، المناکی اور بے ثباتی کے ساتھ قبول کیا ہے اور اسے سفید و سیاہ کے پیمانے سے نہیں ناپا، بلکہ اس کے ہلکے، گہرے ، لطیف خوشنما، دلنواز، یاس انگیز اور دردناک سبھی رنگوں کو اپنے فن میں سمولیاہے۔ دونوں کے فن میں انسانی جذبات کا ایک شورانگیز سمندر موجزن ہے اور دونوں کی نفسیاتی بصیرتیں حیرت انگیز ہیں اور دونوں نے رنج وغم اور المناک تجربات سے نایاب بصیرتوں اورہمہ گیر وژن کی کشیدگی اور سب سے بڑھ کر یہ دونوں عظیم فنکار الفاظ کا جادو جگانے میں اور سبھی شعرا پر فوقیت رکھتے ہیں۔‘‘
غالب کا فن ایک
Miniature Painter
کے فن سے مشابہت رکھتا ہے جو ایک بہت چھوٹے سے کینوس پر ایک نازک برش کی حساس جنبش سے اور لطیف اور خوش نما رنگوں سے دلنواز نقش تخلیق کرتا رہتا ہے۔ غالب غزل کے بادشاہ ہیں اور غزل کے سیاق وسباق میں غالب کے اشعار کا کینوس محدودہوتے ہوئے بھی وسیع اور اس کی دلکشی غیر معمولی اور معنی آفرینی لا محدود ہے۔ ان کے بیشتر اشعار شدید احساسات، نادر مشاہدات اور نایاب بصیرتوں کا بیش بہا خزینہ ہیں۔
گنجینہ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کی غالب مرے اشعار میں آوے
غالب جدید ذہن کے خالق ہیں۔ بقول علی سردار جعفری ’’غالب کی عظمت صرف اس میں نہیں کہ انھوں نے اپنے عہد کے اضطراب کو سمیٹ لیا، بلکہ اس میں کہ انھوں نے ایک نیا اضطراب پیدا کیا۔ ان کی شاعری اپنے عہد کے شکنجوں کو توڑتی ہوئی ماضی اور مستقبل کی وسعتوں میں پھیل جاتی ہے۔‘‘ غالب نے غزل کے روایتی فورم کو غیر معمولی وسعت دے کر اسے زندگی کے گوناگوں تجربات احساسات، خیالات، مسائل اور گہری بصیرتوں کے اظہار کا وسیلہ بنایا۔ ان کی غزلیں تراشیدہ ہیروں کی طرح انسانی زندگی کے بے شمار رنگوں کو بیک وقت منعکس کرتی ہیں۔ بقول محمد حسن ’’غالب کے کلام میں درد و الم کے حاشیے اور آرزومندی کے بیل بوٹے دونوں ایک دوسرے سے دست و گریباں ہے بلکہ یوں کہاجائے تو بے جا نہ ہوگا کہ انہی دونوں کی کش مکش سے غالب کا فن عبارت ہے۔‘‘
اس شمع کی طرح سے جس کو کوئی بجھادے
میں بھی جلے ہوؤں میں ہوں داغ ناتمامی
زندگی اپنی جو اس رنگ سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
اردو ادب میں انہی پہلو دار شاعری کی وجہ سے غالب ممتاز شاعر ہیں اور ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں۔ غالب پر اردو ادب کو فخر ہے اور اردو ادب ہندوستان کے تہذیبی نقش و نگار کا ایک نقش لازوال ہے۔ بقول سید احتشام حسین :’’غالب نے نظم و نثر میں جو کچھ لکھا ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غالب کی معلومات محض کتابی نہیں تھی بلکہ اپنی ذہانت اور ذاتی تجربہ کی وجہ سے وہ قدیم تصورات سے آگے جاناچاہتے تھے۔ نئی باتوں کو سمجھنا اور نئی انجمنوں سے دلچسپی لینا چاہتے تھے۔‘‘
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں
غالب کی عظمت کی بقا ان کی غزلیہ خصوصیات میں مضمر ہے۔ رمز وکنایات اور اختصار انھیں خصوصیات میں سے ایک ہے۔
قفس میں مجھ سے روداد چمن کہتے نہ ڈر ہمدم
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو
غم ہستی کا اسد کس سے ہو جز مرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
حسن کے شیدائی غالب نے خلوص و سادگی کے ساتھ حسن کو تصوف سے قریب کرکے اپنے اشعار میں پیش کیا ہے۔
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ و عشوۂ و ادا کیا ہے
شکن زلف عنبریں کیوں ہے
نگہ چشم سرمہ سا کیا ہے
غالب کا عشق حقیقی اور مجازی دونوں تھا۔ صوفیانہ اور عارفانہ کلام غالب کی کائنات شعری میں قدم قدم پر موجود ہے۔
دل پر قطرہ ہے ساز انا البحر
ہم اس کے ہیں ہمارا پوچھنا کیا ہے
قطرہ میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل
کھیل لڑکوں کا ہوا دیدۂ بینا نہ ہوا
دہر جزو جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں
غالب کے تخیل کی پرواز فرش تا عرش کے تمام مظاہر کا احاطہ کرتی ہوئی عرش سے ماوراء کی تمناکرتی ہے۔
منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے
عرش سے اِدھر ہوتا کاشکے مکاں اپنا
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
غالب کی دنیائے عشق و عاشقی میں رنگینی و رعنائی کی بہار اور سرور و مستی کا لطف بھی ہے۔ طالب کاشمیری ’’جوہر آئینہ ‘‘ میں رقم طراز ہیں: ’’حسن و عشق کے جذبات واحساسات اور واردات وکیفیات کی ترجمانی کے سلسلے میں انسانی نفسیات کے رنگ میں رنگی ہوئی جیسی تصویریں غالب نے کھینچی ہیں، ان کی مثال ملنی مشکل ہے۔ معشوق کا ناز و انداز، عشوہ و ادا، شرم و حیا چھیڑچھاڑ، رازونیاز، دردِ ہجر، کیفیتِ وصل، خواہشِ بوس وکنار، لذتِ دشنام، عاشق کی سادگی،تمنا، جوشِ جنوں، ذوقِ صحرانورودی، بے اثریِ آہ، و نارسائی نالہ وغیرہ سب کچھ ان کے یہاں موجود ہے۔ غرض فطرت انسانی کے اکثر تقاضے جو جذبۂ عشق سے متعلق ہیں اور معاملہ بندی کے محرک ہوتے ہیں وہ اپنی فن کاری سے اس طرح اُجاگر کرتے ہیں کہ یہ عمل اوروں کی دسترس سے باہر ہے۔‘‘
نیند اس کی ہے، دماغ اس کا ہے، راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں
اسد بندِ قبائے یار ہے فردوس کا غنچہ
اگر وا ہو تو دکھلادوں کہ اک عالم گلستاں ہے
اسد اٹھنا قیامت قامتوں کا وقتِ آرائش
لباس نظم میں بالیدنِ مضمون عالی ہے
آل احمد سرور کے الفاظ میں ’’غالب کی شاعری ایک بالغ ذہن کی شاعری ہے جو تخیل کی مدد سے زندگی کے ان گوشوں کو دیکھ لیتا ہے جو عام نظروں سے پوشیدہ تھے۔ یہی تخلیقی تخیل انھیں ہر سطحی رومانیت اور سستے نشے کی تہی مایگی سے آشنا کردیتا ہے۔‘‘ آخر میں ظ۔انصاری کا ایک اقتباس جس میں غالب کی آفاقی شہرت کا راز پوشیدہ ہے۔ بقول ظ۔انصاری: ’’اردو کے کسی شاعر کے یہاں اتنی غزلیں یکجا نہیں ملتیں جو اول سے آخر تک منتخب اشعار کا مجموعہ ہوں یا جن میں اول درجے کے اشعار ایک ہی غزل میں اس طرح چنے ہوئے ہوں کہ خیال ایک ہی کیفیت کے مختلف پہلؤوں کا مرحلوں میں لطف لے سکے۔ ان میں باطنی رشتے کے علاوہ آوازوں اور لفظوں کا بھی حسن ہموار نظر آتا ہے۔‘‘
...................

سلمان فیصل
ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ
پتہ
370/6-A
ذاکر نگر، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔۲۵
sfaisal11@gmail.com

Sunday, November 28, 2010

کثرت میں وحدت ہندوستان کی خوبصورتی ہے


میں روز صبح مارننگ واک پر جاتا ہوں۔ علی الصباح چہل قدمی صحتِ جسم و دماغ کے لیے مفید ہے۔ صبح سویرے چڑیوں کی چہچہاٹ کے ساتھ باغ کی روِش پر چلنا مجھے بے حد پسند ہے۔اپنی اِسی عادت کے مطابق میں آج صبح پارک میں خراما خراما ٹہل رہاتھا۔ بہار کا موسم ہے۔ گل و غنچے اپنے شباب پر ہیں۔باغ میں کھلے رنگ برنگے مختلف طرح کی خوشبووں والے متنوع قسم کے پھول لوگوں کے ذہن وقلوب کو معطر کررہے تھے۔میں بھی ایک ہی قسم کے مختلف رنگوں اور خوشبووں اور مختلف النوع پھولوں کی، طرح طرح کی خوشبو ¿وں اور رنگوں سے محظوظ ہو رہا تھا۔ میرے ذہن کی اسکرین پر یکا یک خیالات کے کرداروں نے پے در پے دستک دینی شروع کردی۔ میں سوچ ررہا تھا کہ قدرت نے کیسے کیسے پھول بنائے ہیں۔ پھولوں کی ایک ہی قسم کے کئی انواع، کئی رنگ، طرح طرح کی خوشبوویں،لیکن ہیں سارے کے سارے پھول-----ان تمام پھولوں میں ایک طرح کی وحدت ہے۔ یہ تمام پھول ہیں تو مختلف طرح کے مگر لوگوں کو یہ پھول صرف فائدہ ہی پہنچاتے ہیں۔ لوگوں کے ذہن و قلوب کو راحت بخشتے ہیں اور انھیں محظوظ کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑتے۔یہ وحدت ہی تو ہے کہ ایک مالا میں کئی رنگ اور کئی قسم، اور کئی انواع کے پھول ایک ساتھ مل کر مالا کی وحدت کو قائم رکھتے ہیں۔ ایک گلدستے میں مختلف قسم کے پھول باہم مل کر جاذب نظر بنتے ہیں۔
میں ان پھولوں کے بارے میں سوچ رہاتھا کہ ایک نئے خیال نے پھر میرے ذہن کو کھٹکھٹایا کہ ارے یہ پھولوں کی کثرت میں وحدت کی مثال جو پوری دنیا کے پھولوں میں پائی جاتی ہے، ہمارے ملک ہندوستان کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔اس خصوصیت نے ہندوستان کی خوبصورتی میں چار چاند لگائے ہیں۔ کثرت میں وحدت کی یہ مثال ہندوستان کے علاوہ کسی دیگر ملک میں خال خال ہی نظر آتی ہے۔اس نئے خیال نے میرے ذہن کو ہندوستان کی سیر کرانی شروع کردی۔ کثرت میں وحدت کی مثال کے نمونے لیکر خیالات کی ایک لمبی قطار میرے ذہن کی اسکرین پر صف بستہ کھڑی تھی۔ ایک ایک کرکے خیالات آگے بڑھتے اور اسکرین پر اپنا کردار نبھا کر پیچھے ہٹ جاتے لیکن اپنے گہرے نقوش چھوڑجاتے۔
میں سوچنے لگا کہ ہم انسانوں کی ایک قیمتی چیز زبان، یعنی ذریعہ اظہار ، جس کے ذریعے ہم اپنے مافی الضمیرکودوسروں تک پہنچاتے ہیں، ہمارے ملک ہندوستان میں کئی طرح کی ہیں۔ ہندوستان کے آئین کے مطابق بولی، پڑھی ، لکھی اور سمجھی جانے والی زبانیں جہاں 24کی تعداد میں ہیں،تو وہیں صرف بولی اور سمجھی جانے والی بولیاں اس سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ یہ ہندوستان ہے جہاں قدم قدم پر لہجے بدل جاتے ہیں لیکن پھر بھی یہاں کے باشندے اپنی بات دوسروں تک پہنچادیتے ہیں اور انھیں کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوتی۔ یہ کثرت میں وحدت نہیں تو اور کیا ہے ۔ جہاں بھانت بھانت کی بولیاں ہیں اور بھانت بھانت کے لہجے۔ اور ہر زبان اورہر بولی کی ایک الگ شیرینی، اپنی الگ تاثیر اور اپنی منفرد پہچان، مگر پھر بھی ایک دوسرے کے ساتھ ہےں۔
میرے خیال نے ایک اور جست لگائی۔ یہ کیا؟؟؟ میرے ذہن کی اسکرین پر ان پھولوں کی طرح رنگ برنگے تہواروںکی جھلکیاں نظر آرہی ہیں۔یہ ہندوستان ہے۔ جہاں کثرت سے تہوار منائے جاتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جشن ہوتا ہے ۔ بچے کی ولادت سے اس انسان کی وفات تک نہ جانے کتنے تہوار منائے جاتے ہےںمختلف ریاستوں میں الگ الگ انداز میں بچے کی ولادت پر جشن منایا جاتا ہے۔ تہوار بھی ایک نہیں بلکہ ان گنت الگ الگ ریاستوں کے اپنے الگ تہوارہیں، جو اپنے اندر ایک کشش رکھتے ہیں، اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں۔ میرے خیالات تیزی سے بدلتے ہیں۔ ابھی میں ریاستوں کے تیوہاروں کی جھلکیاں دےکھ رہاتھا کہ اچانک منظر بدلتا ہے۔ یہ کیا؟ فصل کے کٹنے کے مناظر اور اس پر جشن۔ پنجاب میں بھانگڑا ہو رہا ہے تو اتر پردیش میں دیہاتی عورتیں فصل کی کٹائی، دنوائی کے ساتھ مسرور کن جشن کے نغمے گنگنارہی ہیں۔ کیرل، کرناٹک اور تمل ناڈو کے باشندوں کے خوشی منانے کے الگ طریقے۔ غرض یہاں بھی کثرت میں وحدت ہے۔ موسم ایک ہے۔ موقع ایک ہے۔ مگر جشن کے انداز جداگانہ۔۔ منظر پھر بدلتا ہے ۔ تہوار مذہبی بھی تو ہوتے ہیں ۔ عید کا دن ہے۔ ایک کثیر تعداد میں لوگ سفید لباس میں ملبوس نظر آرہے ہیں، جن کے سرو ںپر مختلف قسم کی ٹوپیاں ہیں۔ ایک عجیب مسرت و کیفیت والا منظر ہے۔ امیر غریب سب ایک ساتھ ہیں۔ عید گاہ پر میلہ لگا ہوا ہے۔ اسی میلے میں ایک صاحب ثروت و دولت کا صاحب زادہ کھلونہ خرید رہا ہے تو وہیں ایک یتیم غریب بچہ اپنی بوڑھی دادی کے لیے چمٹا خرید رہا ہے ۔اچانک ایک پچکاری میرے ذہن پر پڑتی ہے اور منظر بدل جاتا ہے۔ یہ کیا؟ یہ تو ہولی ہے۔ جہاں لوگ گلے شکوے بھول کر ایک دوسرے کو گلے سے لگاتے ہوئے رخسارو ںپر گلال مل کر لوگوں کے درمیان پیدہ شدہ تناو ¿ اور خلیج کو ختم کردیتے ہیں ۔ اور مستی کرتے ہوئے لوگوں کی آوازیں آتی ہیں برا نہ مانو ہولی ہے۔ اسی شور وغل میں مجھے بھانگڑا کی کان پھاڑنے والی آوازیں سنائی دیتی ہیں تو وہیں سرگوشی میں کسی چرچ سے عیسی مسیح کی ولادت کے جشن کا علم ہوتا ہے۔ یہ مختلف قسم کے تیوہارمختلف مذاہب کے ماننے والوں کی جانب سے منائے جارہے ہیں جو اس بات کے شاہد ہیں کہ ہندوستان کثیر اللسان ملک کے ساتھ کثیر المذاہب ملک بھی ہے جہاں ایک خدا کو کئی طرح سے پوجنے والے موجود ہیں اور ایک ساتھ مل کر اس ملک میں رہتے ہیں۔ اسی کو کثرت میں وحدت کہتے ہیں۔
پارک میں چہل قدمی کے لیے بنی روِش پر چلتے چلتے میں ایک پتھر سے ٹکراجاتا ہوں اور خیالات کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اچانک ایک کمسن دوشیزہ پر میری نظرپڑتی ہے ۔ وہ کان میں ایئر فون لگائے، گھاس پر ننگے پاوں خراماخراما اپنی دنیا میں مگن چہل قدمی میں مصروف ہے۔ جسم پر ایک ڈھیلا ڈھالا لباس ہے جس سے کسی خاص طبقے کی شناخت نہیں ہو پارہی ہے ۔ اس کو دےکھتے ہی پھرخیالات کا ایک اور جھونکا میرے ذہن پرحاوی ہوتا ہے ۔ میں پھر سے ٹہلتے ٹہلتے سوچنے لگتا ہوں کہ ہمارے ملک ہندوستان میں کیسے کیسے لوگ بستے ہیں۔ جن کی اپنی الگ الگ تہذیب ہے اور اپنی الگ شناخت ہے لیکن پھر بھی ایک ساتھ ہیں۔ ایک اور خیال میرا ہاتھ پکڑ کر دیہات کی طرف لے جاتا ہے اور وہاں کے کلچر سے روشناس کراتا ہوا قصبے سے گذرتا ہے، جہاں کی تہذیب گاوں سے مختلف ہونے لگتی ہے اور جب میں شہر میں پہنچتا ہوں تو ایک الگ ہی منظر ہوتا ہے۔ گاوں میں زیادہ اور قصبوں میں کم،لوگوں میں ایک طرح کی یکسانیت ہے ۔ لوگوں کی طرز زندگی ایک سی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہرگاوں دوسرے گاوں سے مختلف اور ہرقصبہ دوسرے قصبے سے مختلف، گویا پورے ملک میں جتنے گاوں او رقصبے اتنے کلچر لیکن شہر میں معاملہ بالکل برعکس شہر تو تہذیبوں کا سنگم ہے۔ قریب سے دےکھےں تو ایک ایک سوسائٹی اور ایک ایک بلڈنگ کے الگ الگ فلےٹوں میں طرح طرح کی تہذیب و تمد ن والے لوگ بستے ہیں لیکن ان کے درمیان ایک وحدت ہوتی ہے بھائی چارے کی، آپسی رشتے کی، ایک ساتھ رہنے کی۔ اس سے اچھی کثرت میں وحدت کی مثال اور کیا ہوسکتی ہے۔
میرے ذہن کی اسکرین پر چلنے والی متحرک فلم کا منظر بدلتا ہے اور اسکرین چار حصوں میں منقسم ہو جاتی ہے۔ چاروں خانوں میں چار مختلف چیزیں نظر آتی ہیں۔ اور چارو ں خانوں میں قدر ت کے حسین نظارے ہیں۔ جو قدرت نے ہمیں خصوصی طور پرعطا کیے ہیں۔ ایک حصے میں راجستھان کی خشک پہاڑی علاقوں کا منظر ہے تووہیں دوسرے حصے میں جموں و کشمیر کی سرسبز وادیاں اپنے جلوے بکھیر رہی ہیں۔ ایک حصے میں خشکی کا سماں ہے تو دوسرے میں پانی ہی پانی۔ کہیں گرمی کی شدت کا منظر مجھے پسینے پسینے کردیتا ہے تو کہیں لداخ جیسے سرد علاقوں کے مناظر اور یخ بستہ ہواووں سے پورے جسم میں جھر جھری پیدا ہوجاتی ہے۔ ایک حصے میں ریگستانی علاقے کی تپش ہے تو دوسری جانب سمندری علاقوں کے خوش نما مناظر۔خالق کائنات نے جو ہمیں قدرتی چیزیں دی ہیں اس میں بھی کثرت میں وحدت ہے۔ ایک ہی ملک میں وہ ساری چیزیں دے دی ہیں جو پوری دنیا میں الگ الگ جگہوں پر پھیلی ہوئی ہیں۔ گویا پورے ہندستان کے ذرے ذرے میں کثرت میںوحدت کا راز پنہاں ہے۔ جو اس ملک کی خوبصورتی کو دوبالاکرتا ہے۔
میں باغ کی روش پر ٹہلتے ٹہلتے ان خیالات میں غرق تھا کہ شعاع آفتاب کی تمازت مےرے ان خیالات پر بریک لگاتی ہے اور میں اپنی حقیقی دنیا میں آجاتا ہوں۔ گھڑی پر نظر پڑی۔۔۔۔۔وقت زیادہ ہوچکا تھا۔ میں پارک سے نکل کر لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہواگھر کی جانب چل پڑا۔۔۔

Sunday, August 9, 2009

شعلہ کائنات : محبت


محبت ایک ایسی شی ہے جو ہر مخلوق کے اندر پائی جاتی ہے۔یہ اس کے اندر کی ایک ایسی عظیم طاقت ہے جو کسی بھی طرح کے دشمن کو زیر کرسکتی ہے۔بغیر محبت کے جذبہ کے کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہو سکتا گرچہ وہ صدیوں تک زندہ رہے مگر بلوغت اور رسیدگی میں سوائے ایک شیر خوار کے کچھ بھی نہیں۔ محبت کے جذبے سے محروم افراد نہ تو کسی سے پیار کرتے ہیں اور نہ ہی ان کے اندر محبت کی حس ہوتی ہے۔ ایسے لوگ ہمیشہ اپنی انا کی تاریکی میں غرق رہتے ہیں۔

ہر شیر خوار کا سامنا سب سے پہلے محبت سے ہوتا ہے۔ وہ رحم اور تلطف کے جذبے کو محسوس کرتا ہے اور پیار و محبت کے جذبے سے سرشار دل کی دھڑکنوں کے ساتھ پروان چڑھتا ہے۔ کم سنی کے بعد ہو سکتا ہے کہ یہ جذبہ اس کے اندر باقی رہے یا وہ اس سے محروم ہو جائے اور اس کی تلاش و جستجو میں ہمیشہ سرگرداں رہے۔

تابدار آفتاب کے رخ پر بھی محبت کی علامت ہوتی ہے۔ آبی بخارات اسی محبت کے لیے پرواز کرتے ہیں اور یہ محبت کی طاقت ہی ان کو اڑاکر آسمان میں لے جاتی ہے۔ اور پھر زمین سے محبت کی وجہ سے ابر رحمت بن کر برستے ہیں۔ جشن بہاراں ہوتا ہے۔ ہر پھول محبت کے جذبے سے سرشار ہوکر کھل اٹھتا ہے۔ محبت سے بھر پور پھولوں کی پتیوں پر شبنم کا رقص نم ہوتا۔ تمام چرند پرند باہم مل کر محبت کے گیت گاتے ہیں اور چہچہاتے ہیں۔

دوسروں کا خیال کرنا اور دوسروں کے لیے جینا انسان کی ایسی نیک ، صالح خصوصیات ہیں جو ہر انسان کو اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے۔ یہ خصوصیات محبت ہی کی دین ہے۔ عظیم شخص وہ ہے جو اپنے اندر محبت او ررحم و کرم کا جذبہ رکھتا ہے اور دل کو بغض و عناد سے پاک صاف رکھتا ہے۔

کسی بھی شخص کے دل کو جیتنے کا سب سے آسان اور چھوٹا راستہ محبت ہے۔ تمام انبیاءکرام کا بھی یہی شیوہ رہا ہے ۔ ایسے لوگوں کے لیے کسی کے بھی دروازے بند نہیں ہوتے ہیں ، اگر شاذ و نادر کہیں کوئی دروازہ بند بھی ہوتا ہے تو اس کے لیے دیگر ہزاروں لاکھوں در وا ہوتے ہیں۔ اگر کوئی کسی کے دل میں محبت کے راستے داخل ہوتا ہے تو زندگی کے تمام مسائل کامیابی کے ساتھ حل ہو سکتے ہیں۔
Key Word: Love, Mohabbat, rahm, talattuf, pyaar, peyar,ishq, ishk

Saturday, July 25, 2009

میں موت ہوں

میں موت ہوں۔ مجھ سے کسی کو راہ فرار نہیں۔ ہر ذی روح کو میرے آغوش میں آنا ہے۔ ہر نفس کی میرے دربار میں حاضری ضروری ہے۔ جو مجھ سے بھاگتا ہے اس کو میں دوڑ کر پکڑ لیتی ہوںاور جو مجھ سے قریب ہونا چاہتا ہے، میں اس کو جلدی لفٹ نہیں دیتی۔
مجھے ذی روح کواپنی بانہوں میں بھرنے میں بڑا مزہ آتا ہے۔میں کبھی فرداً فرداً ہر نفس سے گلے ملتی ہوں اور کبھی میرا دامن اتنا وسیع ہو جاتا ہے کہ لاکھوں لوگ بیک وقت ایک ساتھ میری گود میں سما جاتے ہیں۔ میں نہ وقت، نہ جگہ، نہ کوئی لمحہ دیکھتی ہوں میں تو کبھی بھی چپکے سے دبے پاوںچلی ٓتی ہوں کہ میری آہٹ کا ہوا تک کو علم نہیں ہوتا اور کبھی علی الاعلان بنانگ دہل دندناتی ہوی آتی ہوں کہ جہاں سے میرا گذر ہوتا ہے وہاں کے ذی روح تھر تھر کانپنے لگتے ہیں اور ان پر غشی طاری ہوجاتی ہے۔ کبھی کبھی یہ غشی ایسی طاری ہوتی ہے کہ مری لوریاں اسے ہوش میں آنے نہیں دیتیں اور اس کو ابدی نیند میں غرق کردیتی ہیں۔
اس دنےا کے قیام سے اب تک میںایسی واحد ملکہ ہوں جس کی حکومت ابھی تک قائم ہے۔ میری بادشاہت میں کبھی زوال نہیں آیا، میری حکومت کا سورج ابھی تک غروب نہیں ہوا اور میں تاقیامت حکومت کرتی رہوںگی۔ میری حکومت کی داستان بہت قدیم، روشن اور تاب ناک ہے۔ میرے دست مزاحمت سے اب تک کوئی بھی بچ نہیں سکا ہے۔ میرے حملے کبھی بھی ناکام نہیں ہوئے ہےں۔ میں نے ہر جنگ جیتی ہے۔ ناکامی کسے کہتے ہیں مجھے اس کا علم نہیں، اور شکست کا احساس کیسا ہوتا ہے میں نے کبھی محسوس نہیں کےا۔ میں نے شب خوں مارا تو بھی کامیاب ہوئی۔ میری راہ میں جو جو بھی روڑے اٹکاتے ہیں میں ان کو بھی نہیں بخشتی۔
میں کسی بھی صورت میں آسکتی ہوں۔ میرے اندر ہر روپ اختیار کرنے کی صلاحیت ہے۔ کبھی موذی حیوان کی شکل میںآتی ہوں تو کبھی آگ کی شکل میں، کبھی زلزلہ بن کر حملہ آور ہوتی ہوں تو کبھی سنامی جیسے بھیانک طوفان کی شکل میں۔مرض بن کر آنا تو میرے روز کا معمول ہے۔ کبھی خطرناک مرض تو کبھی خفیف مرض کی صورت میں۔
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ”تمہاری“ باری ہے

Friday, July 17, 2009

کمپیوٹرکے پرتشدد کھیل اور معصوم بچپن

کمپیوٹر گیم کو دو زمروں میں رکھا جا سکتا ہے۔ پہلا زمرہ جس میں وہ شامل ہیں جو قابلیت اور صلاحیت کی نشوونما ، زندگی کے تجربات کی سمجھ اور اخلاقی اقدار کو دلچسپ اور پر لطف طریقے سی پیدا کرنے میں معاون ہوں۔ دوسرے زمرے میں وہ کھیل شامل ہوںگے جو بچوں کی تخییلی و فکری صلاحیتوں کوپروان چڑھانے میں ذرا بھی مددگار نہ ہوں بلکہ ان کو پرتشدد اور غیر اخلاقی برتاو¿ اور غیر مہذب طور طریقی کے لیے برانگیختہ کریں۔کھیل کا مثبت اثر یہ ہے کہ اس سے بچوں کی ذہنی،جسمانی اور روحانی نشوونما ہو اور یہ نشوونما اس گیم کے مواد اور اس کی durationپر منحصر ہے۔ اس طرح کے کھیل کی مدت نہ تو بہت مختصر ہو اور نہ بہت طویل۔ اس معاملے میں توازن برقرار رکھنے کے لیے سب سے پہلے ہمیں بچوں کو وقت کا صحیح اور مناسب استعمال کرنے والی تعلیم سے آراستہ کرنا ہوگا۔ غیر ضروری سرگرمیوں میں اپنا وقت برباد کرنے والے بچے بڑے ہوکر اپنے وقت کے مو¿ثر اور کارگر استعمال کے تئیں بے حس ہو جاتے ہیں۔مختصراً یہ کہ بچوں کو وقت کی اہمیت کا شعور اور احساس ہونا چاہئے۔ کمپیوٹر کے سامنے وقت کی بربادی بچوں اور نوجوانوں کو سست اور غیر متحرک بنادیتی ہے اور اس سی بچوں میں ذہنی تناو¿ بھی پیدا ہوتا ہے۔ خاص طور سے چاک و چوبند بچوں میں یہ سستی توانائی(energy) کے اجتماع کا سبب بنتی ہے جس سے بچوں کے برتاو¿ پر منفی اثر پڑتا ہے۔مختلف طرح کے کھیلوں میں بے شمار توانائی کا استعمال بچوں کی ذہنی اور جسمانی نشوونما کے لیے بہت مفید ہے نیز اس سے بچوں میں سماجی شور بھی پیدا ہوتا ہے۔ جبکہ کمپیوٹر کے سامنے وقت گذاری بچوں اور نوجوانوں کوکلچرل سرگرمیوں سے محروم کردیتی ہے۔
اکثر والدین کی شکایت رہتی ہے کہ ان کے بچے صحیح طریقے سے اپنے مافی الضمیرادا نہیں کرپاتے ہیں۔ جب وہ اپنے بچوں سے کوئی سوال کرتے ہیںتو وہ بالکل مختصر یا رٹے رٹائے جملوں میں جواب دیتے ہیں۔ یہ رویہ کمپوٹرکے سامنے بے مقصد وقت گذاری کا ہی نتیجہ ہے۔ بات چل رہی تھی کمپیوٹرگیم کی...... آج کل کے پروڈیوسرز ہر وہ طریقے اپناتے ہیں جوبچوں کو اسکرین کی جانب کھینچ کی جانب لائیں۔ گرچہ وہ مناظر بچوں کی عمر کے شعور کے مناسب نہ ہوں۔ وہ بچے جو پرتشدد مناظر زیادہ دیکھتے ہیںوہ جارحیت اور شدت پسند ہوتے ہیں نیز وہ غضبناک طبیعت کے مالک بھی ہوجاتے ہیں۔ ایسے بچے جو متشددفلمیں زیادہ دیکھتے ہیںاور پرتشدد گیم کھیلتے ہیںوہ ان اعمال کو اپنی زندگی میں بھی دوہرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے بچے مارپیٹ، لڑائی جھگڑا بہت زیادہ کرتے ہیں۔ تخریبی اور متشدد مناظر بچوں میں نیند میں خلل اور غیر فطری برتاو¿ جیسی پریشانیاں بھی پیدا کرتے ہیں۔
کمپیوٹر کی نقصاندہ گیم بچوں کو اپنی تہزیب و تمدن سے بھی عاری کرتے ہیں۔ اس طرح کے گیم بچوں کو ایک ایسی دنیا کی سیر کراتے ہیں جہاں بی ہنگم لباس، چجیب و غریب hairstyls اور لوازمات میں ہتھیار شامل ہوتے ہیں۔ اس طرح کی دنیا میں اخلاق و اقدار کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ والا معاملہ رہتا ہے۔کمپیوٹر پر گتم کھیل کر اپنا وقت برباد کرنے والے بچے زیادہ تر اپنے ماحول سے بے گانے ہوجاتے ہیں اور ایسے بچوں کے دوست بھی کم ہوتے ہیں لہٰذا وہ کمپیوٹر کے غلام بن جاتے ہیں اور معاشرے ان کا رابطہ منقطع ہو جات ہے۔ کمپیوٹر ہی ان کا دوست ہوتا ہے نتیجةً وقت کی بربادی کے ساتھ ان کے اندر تنہائی کا بہت زیادہ احساس ہوتا ہے۔ اس لیے والدین کوچاہئے کہ وہ اپنے بچوں کومناسب سرگرمیوں میں ملوث رکھیں اور معقول حد تک کمپیوٹر گیم کے لیے وقت صرف کرنے دیں۔
کمپیوٹر کے بہت سارے برے کردار بچوں کی شخصیت کی نشوونما پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔ یہ بات یقینی ہے کہ اس طرح کے گیم سے جو پیغام بچوں تک پہنچتا ہے جیسے مضبوط،طاقت ور اور ناقابل چیلینج بننا،دوسروں کی زندگی کے تئیںبے اعتنائی برتنا، اپنے مفاد کے لیے دوسروں کو ختم کرنا، اخلاقی اقدار سے متنفر ہونا، دوسروں کے احساسات کو حقیر سمجھنا، معمر اور قد آور شخصیات کی بے ادبی، ان سب باتوں سے بچوں کی شخصی نشوونما پر منفی اثر پڑتا ہے۔ اس طرح کے گیم سے بچوں کی آموزشی صلاحیتوں پر ناپسندیدہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کمپیوٹر کے اشکرین پر تیزی سے بدلتے مناظر بچوں کو ذہنی انتشار میں مبلتا کرتے ہیںجو آموزشی عمل کو متاثر کرتے ہیں۔ مزید برآں اسکرین کی تیز روشنی کچھ بچوں کے لیے مرگی کے دورے جیسی بیماری کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔
الغرض یہ کہ کمپیوٹر گیم بچوں کے اندرےہ احساس پیدا کرتا ہے کہ زندگی بھی ایک کھیل ہے۔ کمپیوٹر گیمز بچوں کو گیم کے کرداروں کے بارے میں بہت زیادہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں اور بچے چاہتے ہیں کہ وہ ذہنی اور جسمانی طور پر ہمیشہ ان کرداروں کے ساتھ رہیں۔ بہت زیادہ کمپیوٹر گیم کھیلنے والے بچوں کا نظریہ اصلی زندگی میں بھی وہی ہو جات ہے جو نظریہ گیم کے اندر موجود ہوتا ہے۔ وہ اپنے اقربا اور احباب سے بھی اسی طرح کا برتاو¿ کرتے ہیں۔ وہ اصل اور خیالی زندگی میں تمیزکرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ مزید ان کی شخصیت میں غیر سماجی برتاو¿ کا اضافہ ہوتا ہے۔
ہم یقینی طور پر کمپیوٹر کے مفید پہلو کونظرانداز نہیں کرسکتے جو اس دور میں بہت ضروری ہیں۔ لیکن یہ اس وقت بہتر ہوگا جب اس کی مثبت خدمات کو قبول کیا جائے اور اس کے نقصانات سے محفوظ ہونے کو یقینی بنایاجائے۔بچوں کی جسمانی نمو اور بالیدگی کے لیے کھیلنے کے اوقات کو مناسب طریقے سے فی الواقع اور ہم جماعتی کھیل میں تقسیم کرنا ضروری ہے۔اس کے لیے مندرجہ ذیل کھیل موزوں ہو سکتے ہیں۔٭ایسے کھیل جس میں بچے activeکردار ادا کرسکیں٭ایسے کھیل ماہرین کی طرف سے تجویز کردہ ہوں٭ایسے کھیل جو بچوں کے اندر قومی بیداری اور تہذیبی پہچان پیدا کرے٭ایسے کھیل جو بچوں کی ذہن و فراست اور فہم و ادراک میں اضافہ کرے٭ایسے کھیل جو بچوں میں تبادل خیال، جماعتی روح،دوسروں کا خیال، خلوص اور جاں فشانی جیسی صفات پیدا کرنے میں معاون ہوں٭ایسے کھیل جو تجسس پر ابھاریںاور آموزش کو دلچسپ بنائیں٭ایسے کھیل جن میں بچے والدین کو بھی شامل کرسکیں٭ایسے کھیل جوبچوں کی اندر فرائض اور ذمہ داریوں کو بخوبی نبھانے کا جذبہ پیدا کریں۔٭ایسے کھیل جو بچوں کی تخییلی نشوونما، فکری صلاحیت، تفتیشی و اختراعی لیاقت و قابلیت کوبڑھانے میں معاون و مددگار ہوں

اگر ہم خلاق عالم کی طرف سے عطا کردہ آنکھ، کان اور دیگر اعضاءو جوارح کو کمپیوٹر گیم میں مشغول رکھیں گے تو ان کا فطری اور اصلی مقصد فوت ہو جائے گا۔ اسی لیے والدین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی رہنمائی میں بہت محتاط اور باخبر رہیںاور بچوں کے لیے ایک ایسا ماحول تیار کریں جو انھیں ایک دلچسپ اور وافر آموزشی پس منظر فراہم کرے اور ان کی ذہنی قابلیت کو بام عروج پر پہنچادے۔
Published in UMANG of Rashtriya Sahara Urdu